لہما لأن مال اللہ غاد ورائح.(٤٠٠) قال وذا طالب المحتال علیہ المحیل بمثل مال الحوالة فقال المحیل أحلت بدین ل علیک لک یقبل قولہ وکان علیہ مثل الدین١ لأن سبب الرجوع
ترجمہ : ١ یہ فرق اس بنیاد پر ہے امام ابوحنیفہ کے نزدیک قاضی کے فیصلے سے افلاس متحقق نہیں ہوتا ، خلاف صاحبین کے ، اس لئے کہ مال آج جاتا ہے تو کل آجاتا ہے ۔
تشریح : دو وجہ کے علاوہ تیسری یہ بھی ہے جس کی وجہ سے محتال لہ اصل مقروض یعنی محیل سے قرض وصول کر سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حاکم مقروض کی زندگی میں اس کے مفلس ہونے کا فیصلہ کردے ۔
وجہ: (١) ان کی دلیل اوپر کا اثر ہے جس میں ہے ۔قال لایرجع فی الحوالة الی صاحبہ حتی یفلس۔( مصنف ابن ابی شیبة ٨٤ فی الحوالة الہ ان یرجع فیھا ،ج رابع، ص ٣٣٦،نمبر٢٠٧١٦)جس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں محتال علیہ مفلس ہو جائے تب بھی اصل مقروض سے قرض وصول کر سکتا ہے (٢)عن الحسن قال اذا احتال علی ملی ثم افلس بعد فھو جائز علیہ ۔ (مصنف ابن ابی شیبة ٨٤ فی الحوالة الہ ان یرجع فیھا ؟ج ،رابع، ص ٣٣٦،نمبر٢٠٧١٨ ) اس اثر میں ہے کہ اگر زندگی میں محتال علیہ مفلس ہو جائے تو محتال لہ محیل یعنی اصل مقروض سے قرض وصول کر سکتا ہے۔
اصول : امام صاحبین کے نزدیک یہ قاعدہ ہے کہ حاکم کسی کی زندگی میں افلاس کا فیصلہ کردے تو وہ مفلس بحال رہتا ہے۔اور جب وہ مفلس ہو گیا تو اصل مقروض سے قرض لے گا۔
اصول : اور امام اعظم کی رائے یہ ہے کہ مال کبھی آتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے اس لئے کسی کے افلاس کے فیصلے سے وہ ہمیشہ مفلس بر قرار نہیں رہے گا۔بلکہ اس کے پاس مال آنے کی امید ہے اس لئے محتال لہ دائن محتال علیہ کفیل سے ہی قرض وصول کرے گا۔
ترجمہ :(٤٠٠)محتال علیہ ]کفیل[نے محیل ]مقروض [سے مطالبہ کیا حوالت کے مثل مال کا،پس محیل نے کہا کہ میں نے حوالہ کیا اس دین کے بدلے جومیرا آپ پر ہے تو بغیر گواہ کے اس کی بات نہیں مانی جائے گی اور اس پر]مقروض پر[ دین کے برابر رقم لازم ہو گی۔
تشریح : محتال علیہ]کفیل[ نے محیل ]مقروض[سے کہا کہ میں نے جو قرض محتال لہ کو ادا کیا ہے وہ رقم مجھے دیں۔اس پر محیل نے کہا کہ میرا آپ پر پرانا قرض تھا اس کی وصولی کے لئے آپ پر دین کا حوالہ کیا تھا اور اس پرمحیل کے پاس بینہ نہیں ہے تو محیل کی بات نہیں مانی جائے گی۔بلکہ محتال علیہ کی بات مانی جائے گی اور جتنا قرض محتال علیہ نے ادا کیا ہے اتنا قرض محیل سے واپس لیگا۔۔ دلیل آگے آرہی ہے۔