ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
ہوتی، ہر زمانہ اَور ہر جگہ کچھ لوگ حق پرست بھی قائم رہتے ہیں جن کو اپنے ہر کام میں حلال و حرام کی فکر اَور خدا اَور رسول کی رضاجوئی پیشِ نظر رہتی ہے نیز قرآن کریم کا یہ بھی اِرشاد ہے : ( وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ ) '' آپ نصیحت کی بات کہتے ہیں کیونکہ نصیحت مسلمانوں کو نفع دیتی ہے۔'' اِس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اِنتخابات میں اُمیدواری اَور ووٹ کی شرعی حیثیت اَور اُن کی اہمیت کو قرآن اَور سنت کی رُو سے واضح کر دیا جائے شاید کچھ بندگانِ خدا کو تنبیہ ہو اَور کسی وقت یہ غلط کھیل صحیح بن جائے۔اُمیدواری کسی مجلس ممبری کے اِنتخابات کے لیے جواُمیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہو وہ گویا پوری ملت کے سامنے دوچیزوں کا مدعی ہے ایک یہ کہ وہ اِس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے جس کا اُمیدوار ہے دُوسرے یہ کہ وہ دیانت و اَمانت داری سے اِس کام کو اَنجام دے گا۔ اَب اگر واقعی میں وہ اپنے اِس دعویٰ میں سچا ہے یعنی قابلیت بھی رکھتا ہے اَور اَمانت و دیانت کے ساتھ قوم کی خدمت کے جذبہ سے اِس میدان میں آیا ہے تو اِس کا یہ عمل کسی حد تک درست ہے اَور بہتر طریق اِس کا یہ ہے کہ کوئی شخص خود مدعی بن کر کھڑا نہ ہو بلکہ مسلمانوں کی کوئی جماعت اِس کو اِس کام کا اَہل سمجھ کر نامزد کر دے اَور جس شخص میں اِس کام کی صلاحیت ہی نہیں وہ اگر اُمیدوار ہو کر کھڑا ہو تو قوم کا غدار و خائن ہے، اِس کا ممبری میں کامیاب ہونا ملک و ملت کے لیے خرابی کا سبب تو بعد میں بنے گا پہلے تو وہ خود غدار و خیانت کا مجرم ہو کر عذاب ِجہنم کا مستحق بن جائے گا ۔ اَب ہر وہ شخص جو کسی مجلس کی ممبری کے لیے کھڑا ہوتا ہے اگر اُس کو کچھ آخرت کی بھی فکر ہے تو اِس میدان میں آنے سے پہلے خود اپنا جائزہ لے لے اَور یہ سمجھ لے کہ اِس ممبری سے پہلے تو اُس کی ذمہ داری صرف اپنی ذات اَور اپنے اہل و عیال ہی تک محدود تھی لیکن بنضِ حدیث ہر شخص اپنے اہل و عیال کا بھی ذمہ دار ہے اَور اَب کسی مجلس کی ممبری کے بعد جتنی خلقِ خدا کا تعلق اِس مجلس سے وابستہ ہے اُن سب کی ذمہ داری کا بوجھ اِس کی گردن پر آتا ہے اَور وہ دُنیا و آخرت میں اِس ذمہ داری کا مسئول اَور جواب دہ ہے۔