ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
|
یہ مجھے دے جاؤ ! نوجوان : مجھے دینے کا اِختیار نہیں یہ کسی کی اَمانت ہے ۔ تھانیدار : تو اِس کے پیسے دے جاؤ۔ نوجوان : میرے پاس اِس وقت اِتنے پیسے بھی نہیں ہیں۔ تھانیدار صاحب نے غُرّا کے فرمایا کہ پھر تم پر کوئی پرچہ نہ ڈال دُوں .................... ! نوجوان : جناب اِس وقت میں آپ کی تحویل میں ہوں ،جو من چاہے آپ کر سکتے ہیں۔ اِس کے بعد تھانیدار صاحب مسکرادئیے پھر گویا ہوئے کہ قریب آؤ پھر میرے ہاتھ پر بڑے شاہانہ اَنداز سے مہر لگاتے ہو ئے اِرشاد فرمایا کہ تھانے کے اَندرونی حصاروں سے باہر جاتے ہوئے تین جگہ یہ مہر دِکھا دینا کوئی نہیں روکے گا۔ اِس طرح میرے دو گھنٹے برباد ہوئے پھر جا کر کہیں گلو خلاصی ہوئی۔ مُلک کے شریف نوجوان بچوں کے ساتھ قوم کے محافظوں کا یہ سلوک، کیا مزیدکسی تبصرہ کا محتاج ہے ؟ ؟ ہم کہاں کھڑے ہیں ! اَور کیوں ! آخر کب تک ........... ؟ ؟ اَلبتہ اِس بات کی اَعلیٰ سطحی تحقیق تو ضرور ہونی چاہیے کہ یہ تھانیدار آخر کس مدرسہ کا پڑھا ہوا تھا تاکہ اُس مدرسہ کی گئی گزری کار گزاریاں قوم کے سامنے آجائیں ! ! !