ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2013 |
اكستان |
|
بر صغیر پاک و ہند میں ''فتنہ مرزائیت'' کو اَنگریز کی سرپرستی میں خوب پروان چڑھا یاگیا اَور اِس گھناؤنی سازش کے تحت اِسلام کے نام پر اِسلام ،اَور قرآن کے نام پر قرآن کو لوٹا گیا، تقسیم کے بعد پاکستان میں بھی اِس فتنہ کو بڑھنے کے خوب مواقع فراہم کیے گئے لیکن اِس کے مقابل عشق ِ رسالت علی صاحبہاالصلوة والسلام کے جذبے سے سرشار دیوانوں اَور شمع ِ ختم ِ نبوت کے پروانوں نے بھی اِس فتنے کا خوب تعاقب کیا ہے اَور اِس کے خلاف کسی بھی قسم کی قربانی سے دَریغ نہیں کیا۔ اَپنی قربانیوں کے نتیجے میں ١٩٧٤ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے تمام اَرکان نے قادیانیوں کے کفریہ اَور رُوح فرسا عقائد اَور خلاف ِ اِسلام خطرناک گھناؤنے عزائم کو دیکھتے ہوئے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے آئین کے آرٹیکل (٣) ١٠٦ اَور (٣) ٢٠٦ میں ترمیم کے ذریعے مرزائیوں کے کفرپر مہر ثبت کردی لیکن یہ بدبخت گروہ پھر بھی ختم ِ نبوت سے بغاوت اَور اَپنے کفر واِرتداد کو اِسلام کے نام پر پھیلانے کے قبیح دَھندے سے باز نہ آیا تو ١٩٨٤ء میں اِمتناع ِقادیانیت آرڈیننس جاری کیا گیا اَور تعزیرات ِ پاکستان میں دو نئی دفعاتB/298 اَورC/295 کا اِضافہ کیا گیا جس کے تحت اگر کوئی اَزلی بدخت سرکارِ دو جہاں ۖ کی شانِ پاک میں کسی بھی قسم کی توہین کرے تو اُس کی سزا ''موت'' ہے۔ اِسی طرح قادیانیوں پر پابندی عائد کردی کہ وہ اَپنے کفر کو اِسلام اَور خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے اَور نہ ہی اِسلامی شعائر و اِصطلاحات (مثل کلمہ، آیات ِ قرآنیہ، مسجد، نماز وغیرہ) کا اِستعمال کر سکتے ہیں اَور نہ ہی مرزا قادیانی کو نبی اَور رسول ،اُس کے ماننے والوں کو صحابی، اُس کی بیوی کو اُم المومنین، اُس کی باتوں کو حدیث کہہ سکتے ہیں۔ اِسی طرح مرزا قادیانی کے لیے صلی اللہ علیہ وسلم یا علیہ السلام، اُس کی بیوی کے لیے رضی اللہ عنہا اَور پیرو کاروں کے لیے رضی اللہ عنہ کا اِستعمال بھی نہیں کر سکتے، غرض اِن دو نئی دفعات کے ذریعے قادیانیت کے کفر کو لگام ڈال دی گئی۔ قادیانی اِن تمام تر پابندیوں کے باوجود ایک عرصہ سے ہمارے ملک ِ عزیز میں خفیہ طریقوں سے مسلمانوں کو اَپنے دامِ فریب میں پھنسا کر اُن کے اِیمان پر حملہ آور ہیں اَور بر سرِ عام شعائر اِسلامی کے اِستعمال کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دے کر اِسلام اَور اہلِ اِسلام کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔