ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
اَور دہشت گرد کا معنٰی ہے حیرانی پریشانی اَور مدہوشی پھیلانے والا۔ لہٰذا ہر وہ شخص دہشت گرد کہلائے گا جو اِنسانوں کو پریشانی میں مبتلاء کرتا ہے اَور اَمن ِعامہ کو نقصان پہنچاتا ہے جس سے عوام پریشان ہوجاتی ہے۔ دہشت گرد اپنی قوت کے ذریعے دُوسرے کی رائے بدل دیتا ہے اِسی طرح جو بھی شخص اِنسانوں کی قیمتی چیزوں کا نقصان کرے وہ دہشت گرد ہے۔ ہمارے نبی کریم ۖ نے اِسی دہشت گردی کو روکنے کے لیے ایک اُصول تجویز فرمایا ہے : اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہ وَیَدِہ یعنی زبان اَور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں۔ گویا کہ دہشت گردی کی اِبتداء زبان اَور ہاتھ سے ہوتی ہے اگر اِبتدائی مرحلہ میں ہی روک دی جائے تو ملک میں اَمن و سلامتی پھیلتی ہے کہ اِسلام نام ہی اَمن و سلامتی کا ہے۔ سب سے پہلے اِنسان زبان سے گالی اَور ہاتھ سے تھپڑ اَور مکے کے ذریعے دُوسرے کو پریشان کرتا ہے اگر اِس پر اِبتداء میں ہی قابو پالیا جائے تو دہشت گردی اِبتداء میں ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ہاتھ کی دہشت گردی پروان چڑھتی ہے تودُوسروںکے مال کی چوری کرنا، ڈاکے ڈالنا، قتل کرنا،دُوسرے کے گھر طاقت کے زور سے گھس جانا، دُوسرے کے گھر یازمین پر قبضہ کر لیناجیسے جرائم سرزد ہوتے ہیں جس سے لوگ پریشان ہوتے ہیں اَور اَمن ِعامہ خطرے میں پڑجاتا ہے۔ اِسی بناء پر اگر کوئی ملک دُوسرے ملک پر چڑھائی کر دیتا ہے تو بڑے درجہ کی دہشت گردی شمار ہوگی جیسا کہ اَمریکہ اَفغانستان میں گھس کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے اَور اِسی طرح اَنڈیا کشمیر میں گھس کر دہشت گردی کر رہے ہیں اَور کوئی ملک بھی اُن کو روکنے کی بات نہیں کررہا۔ ایسے ہی جب زبان کی دہشت گردی پروان چڑھتی ہے تو اِلزام لگا کر یا جھوٹا مقدمہ درج کرواکر یا جھوٹی گواہی دے کر یا جھوٹی تہمت لگا کر لوگوں کو پریشان کرتی ہے اَور اَمن ِعامہ کو تباہ کرتی ہے۔اِس کا سد باب کرنے کے لیے اِسلام نے تعزیر اَور زناکی تہمت (چونکہ سنگین دہشت گردی ہے اِس لیے اِس) کی سزا اَسی (٨٠)کوڑے مقرر کی ہے تاکہ اَمن ِعامہ میں خلل نہ آئے اَور نقص اَمن نہ ہو۔جب سے کافروں کا مسلمان ملکوں پر تسلط ہوا ہے اُس وقت سے کفار نے اَسلحہ کے زور پر مسلمان