ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
کہ یورپ زبانوں کی دِلدل میں پھنس گیا۔ یورپ کے عاقبت اَندیش اَور خیر خواہ دَانشوروں نے محسوس کیا کہ زبانوں کا اِختلاف کسی روشن مستقبل کی علامت نہیں، اُنہوں نے لاطینی کو مشترک اَور بین الاقوامی زبان بنائے رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی لیکن لاطینی کی اَندرونی خرابی نے اِن کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیا، ایک طرف مقامی زبانوں کی برتری کا عام رُجحان اَور دُوسری طرف لاطینی زبان کی مشکلات دو ایسے اُمور تھے جنہوں نے اِس زبان کے زوال کو یقینی بنا دیا، نوجوان نسل نے لاطینی زبان کے قواعد کے ناقص ہونے پر اِعتراض کیا اَورکہاکہ ہمارے پاس اِتنا زیادہ وقت نہیں کہ سائنسی علوم کی تعلیم سے پہلے عمرِ عزیز کا گرانمایہ حصہ لاطینی کے قواعد رَٹنے میں صرف کردیں، ظاہر ہے کہ نوجوان نسل کا لاطینی سے فرار ایک قدرتی اَمر تھا اَور اُن کے اِعتراض کا اِن دانشوروں کے پاس کوئی جواب نہ تھا جو لاطینی کو زندہ رکھنے کی کوشش میں تھے۔ آخر یورپ کے بہی خواہ دَانشوروں نے لاطینی کی جگہ کسی دُوسری زبان کی تلاش شروع کی جسے پورے براعظم میں مشترک زبان کی حیثیت سے اَپنایا جاتا لیکن اہلِ یورپ کی بدقسمتی کہیے کہ اُنہیں یورپ میں رائج قومی زبانوں میں کوئی زبان بھی ایسی نہ مِل سکی جس میں مشترک زبان ہونے کی صلاحیت ہوتی۔ مصنوعی زبانیں : یورپ کے ماہرین ِلسانیات براعظم میں رائج زبانوں کی صلاحیتوں سے مایوس ہوگئے تو اُنہوں نے مصنوعی زبان(Artificial Language) کی تیاری پر سوچنا شروع کیا، اِس سلسلے میں یورپ کے ماہرین نے جس قدر محنت کی اُس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں اَلبتہ چند بنیادی اَور ضروری باتیں یا اِشارات ہدیۂ ناظرین کیے جاتے ہیں : (١ ) ١٦٦٨ء میں بشپ ولکنز(Bishop Wilkins)نامی ایک ماہرِ لسانیات نے