ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
'' فلسفیانہ زبان''(Philosophical Language) کے عنوان پر ایک مضمون لکھا جس میں فرانس کے مذکورہ بالا فلسفی کے خیالات کی تائیداَور اُسے عملی جامہ پہنانے کے اِقدامات کی وضاحت کی گئی تھی۔ ( ٢ ) ١٦٦١ء میںدالگرنو(Dalgarno) نام کے ایک عالِم لسانیات نے ایک ایسی زبان تیار کی تھی جس کا ذخیرہ الفاظ ریاضی کے اَعداد کی طرح آسان اَور قابلِ فہم تھا، اُس نے ایک جیسے معانی کے لیے ایک جیسے کلمات تجویز کیے تھے، ہاتھی ، گھوڑا، گدھا اَور خچر، بار برداری کے کام آنے والے چار جانور ہیں جو ایک دُوسرے سے کام کی نوعیت کے اِعتبار سے تعلق رکھتے ہیں۔ ''دالگرنو'' کی زبان میں اِن چاروں جانوروں کے لیے جو کلمات مخصوص تھے وہ بھی آپس میں قریبی ربط رکھتے تھے مثلاً :ہاتھی کے لیے '' نیکا'' گھوڑے کے لیے'' نیکے'' گدھے کے لیے''نیکی'' اَور خچر کے لیے'' نیکو'' کا لفظ تھا۔ (٣) ١٦٦٤ء میں برطانیہ کی رائل سوسائٹی نے اَنگریزی کی اِصلاح کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی، اُس کمیٹی کا قیام اِس حقیقت کا اِعتراف تھا کہ اَنگریزی ناقص زبان ہے اَور اِس میں بین الاقوامی زبان ہونے کی صلاحیت نہیں، اُس کمیٹی نے کیا سفارشات کیں یا اَنگریزی کی اِصلاح کے سلسلے میں کیا خدمات سر اَنجام دیں، اِس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا اَلبتہ اُس کمیٹی نے '' دالگرنو'' کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ آپ کی تیار کردہ زبان کو عالمی زبان کے طور پر قبول کرلینے کی بادشاہ کو سفارش کی گئی ہے۔ (٤) بشپ ولکنز(Bishop Wilkins)نے جو زبان مرتب کی تھی، اُس کی ایک خوبی یہ تھی کہ اُس میں دُوسری زبانوں کے تراجم یا اِس زبان کے دُوسری زبان میں ترجمے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی، کسی ایک زبان کی کتاب کو ولکنز کے تیار کردہ رسم الخط میں لکھ دینے سے اِس میں یہ خوبی پیدا ہوجاتی تھی کہ وہ لوگ بھی اِس کتاب کو سمجھ سکتے تھے جو اِس زبان سے واقف نہیں ہوتے تھے جس میں کتاب لکھی گئی تھی۔ گویا ولکنز نے تلفظ اِیجاد نہیں کیا تھا، رسم الخط مرتب کیا تھا۔ ولکنز نے اِس اِیجاد کا تصور ریاضی کے اَعداد اَور چینی کے رسم الخط سے لیا تھا، ریاضی کے اَعداد لکھنے والا کسی زبان میں لکھنے