ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
اَور جس جس چیز کی ضرورت پڑتی ہے تو اللہ کی ذات وہ ذات ہے ۔ علماء ِ صوفیہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک کے بارے میں غور کرنا یہ ہر ایک کا کام نہیںہے منع کرتے ہیں ہاں اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک کو پہچاننے کے لیے صفات کا جاننا یہ کافی ہے کہ اللہ کی یہ صفت ہے کہ اُس جیسی کوئی چیز نہیں اَور وہ کسی جیسا نہیں اللہ کی یہ صفت ہے کہ وہ ہر عیب اَور نقص سے پاک ہے عاجزی سے پاک ہے کہ کوئی کام نہ کرسکے ایسا ہے ہی نہیں اُس میں تمام کمال کی صفات جو آپ سوچ سکتے ہیں صفاتِ کمالیہ وہ سب پائی جاتی ہیں اعلیٰ سے اعلیٰ صفت جو ہو وہ پائی جاتی ہے تو ننانوے صفات جو اللہ تعالیٰ کے ناموں میں بتائی گئیں ہیں جو ننانوے نام حق تعالیٰ کے ہم پڑھتے ہیں جانتے ہیں چھپے ہوئے بھی ملتے ہیں اُن میں بتائیں وہ جیسے اُس کی شان کے لائق ہے کَمَا یَلِیْقُ بِشَانِہ ۔ تو حقیقت یہ ہے کہ اِنسان عاجز ہے اپنے خالق کو پوری طرح جاننے سے، پوری طرح نہیں جان سکتا اگر اِتنا بھی جان نہ سکتا تو اِنسان کو اِیمان کا مکلف ہی نہ قرار دیا جاتا ۔ اِنسان جیسے' شعور' کے بوجھ سے سب نے اِنکار کر دیا : اِس کے بارے میں کہتے ہیں اِنَّا عَرَضْنَاالْاَمَانَةَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ قرآنِ پاک کی آیت ہے یہ کہ اَمانت ہم نے پیش کی آسمانوں کو زمین کو پہاڑوں کو سب نے اِنکار کردیا نہیں لیں گے، ہم نہیں لے سکتے وہ شعور جو اِنسان کو دیا گیا وہ عقل جو اِنسان کو دی گئی جس قسم کی زندگی حیات اِنسان کو دی گئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا آسمانوں سے کہ میں تمہیں دے دُوں یہ، اُنہوں نے کہا نہیں اِس قسم کی حیات کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ جو اِنسان کو لوازمات دے دیے گئے 'شر' بھی دیا' خیر' بھی دی' عقل' بھی دی مکلف بنایا اِس طرح کی حیات اُن کو بخشنے کے لیے فرمایا کہ یہ شعور تمہیں بھی دے دُوں تو اِنہوں نے اِنکار کردیا حَمَلَھَا الْاِنْسَانُ اِنسان ہی وہ چیزہے بس، جس میں وہ چیز آگئی وہ حیات آگئی وہ شعور آگیا بہت بڑی چیز ہے