ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
میں حائل ہورہا ہے تو اُنہوں نے جابجا درس گاہیں قائم کرکے عربی زبان کی درس و تدریس شروع کردی اَور غیر عرب اَقوام کو ثانوی زبان کے طور پر عربی سکھانے میں سہولت کی خاطر عربی زبان کے قواعد (Grammer) کا فن اِیجاد کیا، ہمارے اِس بیان کی تصدیق اِس اَمر سے بھی ہوتی ہے کہ عربی قواعد کی مستند ترین کتابیں غیر عرب علماء کی تصنیف کردہ ہیں۔ سقوط ِبغداد کے حادثے کے بعد مسلمان سیاسی اِقتدار سے محروم ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ مغربی یورپ اَور خاص کر برطانیہ اَور فرانس نے فتوحات کا سلسلہ شروع کیا،اِن مُلکوں کے سیاستدانوں نے مذہب کو دُنیاوی مقاصد کے لیے اِستعمال کیا اَور اِس کی صورت یہ نکالی کہ عیسائیت کی تبلیغ کے بہانے کم ترقی یافتہ اَور پسماندہ مُلکوں میں پادری (مبشر) بھیجے اَور اُن کے پیچھے فوجوں ، جرنیلوں اَور سیاسی شاطروں نے پیش قدمی کی، پادریوں نے تبلیغ کے دَوران اَور جرنیلوں نے فوجی کارروائیوں اَور اِن کے بعد نو آبادیات میںنظم ونسق کے دَوران ایک مشترک زبان کی ضرورت محسوس کی، برصغیر پاک وہند میں رومن اُردو، کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کا قیام اَورمیراَمن دہلوی کے ''باغ و بہار'' جیسے طویل اَفسانے، اَنگریز حکمرانوں کی زبان کی ضرورت کے بارے میں اِسی اِحساس کا نتیجہ ہیں۔ سترہویں صدی کے شروع تک یورپ میں لاطینی(Latin)عملی زبان کے طور پر رائج تھی۔ یورپ کے ہرحصے اَور قوم میں اِس کی دَرس و تدریس کا اِہتمام تھا، اِس طرح اِنہیں ایک ایسی زبان حاصل تھی جو اِس براعظم کے مختلف اَقوام میں افہام و تفہیم کا ذریعہ تھی۔ ایشیا، اَفریقہ اَور اَمریکہ میںفتوحات اَور نوآبادیات کے قیام نے یورپ کے مختلف مُلکوں اَور طاقتوں کے درمیان رقابت، حسد، عناد اَور مخالفت کے جذبات پیدا کردیے اَور اِس طرح یورپ سرد وگرم دونوں قسم کی خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ اِس خانہ جنگی میں فتح حاصل کرنے کے لیے سیاست دانوں نے اپنے اپنے مُلک کے عوام میں نسلی اَور مُلکی برتری کا جذبہ اُبھارنے کی کوشش کی اَور ہر مُلک کے حکمرانوں نے اپنی قومی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دے کر لاطینی زبان(Latin) کے لیے عرصۂ حیات تنگ کردیا، اِس کا نتیجہ یہ ہوا