ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
ہم عصر فقہاء نے سندات کے لفظ کے بجائے صکوک کے لفظ کو ترجیح دی اَور وہ صکوک کا اِطلاق سرمایہ کاری اَور تمویل کے اُن دستاویزی ذرائع پر کرتے ہیں جو اَشیاء (اعیان) کی ملکیت، منافع کی ملکیت یا دونوں کی ملکیت کی نمائندگی کرتے ہوں اَور جن میں اَحکام ِ شرعیہ کالحاظ رکھا جاتا ہو اَور جو سودی عنصر سے خالی ہوں اَور جو سودی سندات سے مختلف ہوں جن میں قرض ودین کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اِسلامی تمویل کے اِداروں کی اَکاؤنٹنگ و آڈیٹنگ تنظیم (Accounting & Auditing Organisation for Islamic Institutions=AAOIFI) کے تیار کردہ معاییر شرعیہ (Sharia Standards) نے صکوک ِاِسلامی کو صکوکِ اِستثماری (یعنی سرمایہ کاری کے صکوک) کا نام دیا تاکہ اُن کو مروجہ حصص اَور سندات سے اِمتیاز حاصل ہو اَور صکوک کی یہ تعریف کی : ''صکوک ایسی دَستاویزہیں جو یکساں قیمت کی ہوں اَور جو اَشیاء (اعیان) یا منافع یا خدمات کی ملکیت میں یا کسی خاص کاروباری منصوبے کے اَثاثوں کی ملکیت میں یا سرمایہ کاری کی کسی خاص سرگرمی میں غیر متعین حصے کی نمائندگی کرتے ہوں۔ یہ سب کچھ اُس وقت ثابت ہوتا ہے جب صکوک خریدنے والوں سے اُن کی قمیت وصول کی جا چکی ہو اَور صکوک کی فروخت بند کردی گئی ہو اَور جس غرض سے صکوک جاری کیے گئے ہوں اُس میں رقم کا اِستعمال شروع کر دیا گیا ہو۔'' عالمی مجمع فقہ اِسلامی نے صکوک ِمضاربت کی یہ تعریف کی : ''یہ سرمایہ کاری اَور تمویل(Financing)کا ایسا ذریعہ ہے جس میں رأس المال کو مساوی حصوں پر تقسیم کرتے ہیں ۔اِس کی صورت یہ ہے کہ رأس المال کی یکساں قیمت کی اَکائیاں بنا کر اُن کو پبلک میں فروخت کے لیے جاری کرتے ہیں۔ (اِن اکائیوں کو صکوک کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے) اِن صکوک کے حامل