ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
طریقت کا کچھ اَور مطلب لینا گمراہی ہے : اَور یہ کہنا کہ ظاہری شریعت یہ ہے اَور باطنی طریقت میں اَحکام اَور ہیں اَلگ ہیں یہ گمراہی ہے اِس کی کوئی حقیقت نہیں سب غلط ہے اللہ تعالیٰ نے جو اَحکام دیے ہیں وہ یہی ہیں اَلبتہ تَخَلُّقْ بِھَا یعنی اِن کی عادت بن جائے یہ تو'' طریقت'' ہے اَور جو سکھاتے ہیں صوفیائے کرام جو طریقہ بتلاتے ہیں ذکر کااُس کا نام'' اَشغال'' ہے اَور جو یہ'' اِحسان'' ہے اِس کا نام'' وصول'' ہے بعد میں علماء نے صوفیاء نے یہ نام رکھا ۔ ''نسبت'' کیا ہے : اَور ایک چیز ہے نسبت، نسبت ایک ربط ِ خاص ہے اللہ کی ذات سے قوی تعلق قلب کا اللہ پاک کی ذات سے بہت قوی قسم کا ہوجائے جس میں کوئی شک تردّد نہ آتا ہو بس شک کی بات سننے کی گنجائش ہی نہ ہو جیسے علماء نے مثال دی ہے '' اِیمانِ عجائز'' کی بوڑھیوں کا اِیمان کہ وہ دُوسری بات سنتی نہیں ہیں اُس کو کچھ بھی سمجھا لو وہ نہیں سمجھ میں آئے گا اُس کے، جو اُس کا اِیمان بن چکا ہے اُس میں کوئی تردّد کی گنجائش نہیں دَلیل کی بھی ضرورت نہیں اَور دلیلیں دو تو بھی بیکار کوئی چیز اُس کو ہلا نہیں سکتی۔ بہت ریاضت کے بعد'' نسبت'' کا حصول ہوتا ہے : تو یہ نسبت رسول اللہ ۖ کی صحبت ِ مبارکہ کی برکت سے صحابۂ کرام کو فورًا حاصل ہوجاتی تھی اَور ہمیں ایک مدت لگتی ہے عبادتیں کرنے میں قرآنِ پاک کی تلاوت ہو نوافل ہوں یا اَور عبادتیں ہوں بڑی مدت لگتی ہے پھر جا کر دِل کا تعلق اللہ کی ذات سے پکی قسم کا ہوتا ہے کہ پھر آدمی کو جو بات خلافِ شرع ہو وہ ناگوار گزرنے لگے سچ مچ ایسی کیفیت ہوجائے کہ خلاف ِ شرع چلتے ہوئے اَپنے آپ کو بوجھ ہو اَور اِستغفار کرے ذرا سی خلافِ شرع ہوجانے پر خود اپنی غلطی محسوس کرے وغیرہ وغیرہ یہ کیفیت ایک عرصہ بعد پیدا ہوتی ہے۔