ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
ضرورت کا اِحساس : اِسلام نے روزِاَوّل سے ہی عالمی زبان کی ضرورت کا اِحساس کرلیا تھا چنانچہ قرآنِ کریم کی تلاوت، نماز اَور خطباتِ جمعہ وعیدین کے لیے عربی زبان کو بین الاقوامی سطح پر لازمی قرار دیا ہے، گویا جس ضرورت کا اِحساس اہلِ دُنیا نے ''بعد اَز خرابی بسیار تجربات ''کی روشنی میں آج کیا ہے، اِسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے کرلیا تھا۔ اِس سے پہلے کہ یہ بتایا جائے کہ کس مُلک یا قوم کے لوگوں نے عالمی زبان کی ضرورت کا احساس کب کیا اَور پھر اِس باب میں کس نوعیت کی کوششوں کو کام میں لایاگیا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اُن اَسباب وعلل کی نشاندہی کی جائے جو اِس احساس کے محرک ہوئے ہیں۔ مسلمانوں میں عالمی زبان کی ضرورت کا اِحساس ،اشاعت ِاِسلام اَور وسیع وعریض سلطنت کے نظم وضبط نے پیدا کیا تھا، اُموی خلافت کے زمانے میں فتوحات کا سلسلہ پھیل گیا اَور اُندلس سے سندھ تک کی وسیع ممُلکت ایک مرکزی حکومت کے تحت چلنے لگی تو اَربابِ سیاست نے ایک ایسی زبان کی ضرورت محسوس کی جو پورے عالمِ اِسلام میں افہام وتفہیم کا ذریعہ ہو چنانچہ عبدالمُلک بن مروان نے عربی کو پورے عالمِ اِسلام کی سرکاری زبان قرار دے دیا اَورکوشش کی کہ ممُلکت کے مختلف حصوں میں بولی جانے والی عقابی زبانوں کے دَوش بدوش عربی کو رائج اَور عام کیا جائے۔ اُمویوں کے بعد عباسی دَور کے خلفاء نے غیر مُلکی زبانوں کے عربی میں تراجم کا سلسلہ شروع کیا اَور لاطینی ، یونانی، عبرانی، فارسی اَور سنسکرت زبانوں میں لکھی ہوئی کتابوں کو عربی میں منتقل کردیا اِس طرح ایک آدمی کے لیے صرف عربی کے سیکھ لینے سے مختلف زبانوں میں تصنیف کی کئی کتابوں کا مطالعہ ممکن ہوگیا۔ ''اِسلام''ایک تبلیغی اَور بین الاقوامی مذہب(دین )ہے، مسلمان جہاں کہیں گئے اُنہیں زبانوں کی مغایرت کا شدت سے اِحساس ہوا اَور جب دیکھا کہ زبانوں کا اِختلاف دین کی اِشاعت