ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
متصور نہیں ہوسکتے۔ حاصل کلام یہ کہ :(١) اِنسان نے دُوسرے جانداروں کے مقابلے میں جو شاندار معاشرتی ترقی کی ہے، وہ زبان کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔(٢) آج زبان کی شاخ دَر شاخ تقسیم اَور بولیوں کے اِختلاف نے دُنیا بھر کے اِنسانوں میں اِختلافات پیدا کردیے ہیں، ایسے اِختلافات جنہوں نے نہ صرف ترقی بلکہ عالمِ اِنسانیت کو خطرات سے دو چار کردیا ہے۔ عالمی زبان : عالمی زبان سے مراد ایک ایسی زبان ہے جو ساری دُنیا میں رائج ہو اَور جس کے ذریعے مختلف اَقوام ومِلل کے لوگ ایک دُوسرے سے میل جول اَور روابط بڑھا سکیں۔ بعض لوگ عالمی زبان کو قومی اَور علاقائی زبانوں کے لیے خطرہ خیال کرتے ہیںجس طرح ہٹلر نے عالمی زبان اِسپرانتو (Esperanto) کو جرمنی کی قومی زبان کے لیے خطرہ تصور کرتے ہوئے اِسے مُلک میں خلافِ قانون قرار دیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ عالمی زبان کسی مُلکی،قومی یا علاقائی زبان کے لیے خطرہ نہیں ہوتی، جدید لسانیات کے ماہر بوڈمر(Bodmer) نے اپنی کتاب''دی لوم آف لینگویج(The Loom of Language)کے گیارہویں باب میں اِس قسم کے تمام فرضی خطرات اَور خدشات کی تردید کردی ہے اَور عالمی زبان کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھا کہ : ''عالمی زبان ہر مُلک میں ثانوی زبان کے طور پر رائج ہوگی، آج بھی دُنیا بھر کے مدارس میں بچے مادری زبان کے ساتھ ساتھ لازمی طورپر ایک یا ایک سے زیادہ غیر مُلکی زبانوں کی................ درس و تدریس اَور رواج سے کسی مُلک اَور قوم کی زبان کو خطرہ نہیں توعالمی زبان کی تعلیم سے خطرہ کیوں ہوگا۔''