ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
قسط : ٤سیرت خلفائے راشدین ( حضرت مولانا عبدالشکور صاحب فاروقی لکھنوی ) خلیفہ رسول اللہ حضرت اَبوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (١٢) جب کامل تیرہ برس تک مکہ کے کافروں کی طرف سے ہر قسم کے ظلم و ستم اُٹھا کر سرور اَنبیاء ۖ اَور آپ کے اَصحاب اِمتحانِ خدا وندی میں کامل ہو چکے اَور علم ِاِلٰہی میں اُن ظالموں کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا تو وحی اِلٰہی میں آپ کو حکم ملا کہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے جائیں۔ اِس سفر ہجرت میں خدا اَور خدا کے رسول ۖ نے تمام جماعت ِصحابہ میں صرف حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو منتخب فرمایا وہی اِس سفر میں آپ ۖ کے ساتھ تھے، اِس سفر میں قدم قدم پر جیسی کچھ جانی ومالی خدمتیں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے کیں، عشق و محبت کی دَاستانوں میں کوئی واقعہ اِس سے مافوق نہیں مِل سکتا۔ یارِ غار کی مثل دُنیا میں اُسی وقت سے رائج ہوئی جب سے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے غار میں اپنے حبیب نبی کریم ۖ کی یاری کی۔ جو کوئی کسی کا مخلص دوست ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ ''فلاں شخص ہمارا یارِ غار ہے '' ۔ اِس سفرِ ہجرت میںرسولِ خدا ۖ نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنی رفاقت کے لیے منتخب و مخصوص کر کے یہ بات سب پر ظاہر کردی کہ اُن کے اِخلاص و محبت پر آپ ۖ کو کامل ترین اِعتماد تھا اَور یہ کہ وہ سب سے زیادہ عقل مند اَور مدّ بر اَور تجربہ کار اَور سب سے زیادہ شجاع و بہادر تھے کیونکہ اِس خطرناک سفر کے رفیق میں اِن سب اَوصاف کا ہونا ضروری تھا۔ ذرا اِس سفرِ ہجرت پر اِجمالی نظر ڈالیں تو وہ کفارِ مکہ کا آنحضرت ۖ کے قتل کے لیے جمع ہونا اَور آپ کے مکان کا محاصرہ کرنا اَور آپ کا اِس محاصرہ سے نکل کر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے