ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
تو بے پرد گی ہی سے ہوا۔ اَور اَکثر تو یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں میں ایسے واقعات ہوتے ہیں اُن کو پردہ دار کہنا بھی برائے نام ہے ورنہ اُن کے یہاں نہ چچا زاد بھائی سے پردہ ہے نہ ماموں زاد بھائی سے نہ خالوزاد بھائی سے ،نہ بہنوئی سے ،نہ دیور سے، نہ جیٹھ سے، جب ہی تو یہ مفاسد مرتب ہو ئے ہیں اِس حالت میں اُن کو پردہ دار کہنا ایسا ہے جیسے کوئی عزت دار آدمی شراب پی کر جیل خانہ میں پہنچ جائے تو کوئی کہے کہ صاحب جیل خانہ میں معززین (عزت والے) بھی جانے لگے۔ یہ غلط ہے بلکہ وہ معززین جیل خانہ میں جب ہی پہنچے جبکہ عزت (والے کام ) کو چھوڑ دیا۔ اِس وقت اُن کو معزز کہنا صرف خاندانی نسبت کی وجہ سے ہے ورنہ عزت تو وہ رُخصت کر چکے کیونکہ عزت تو عزت والے کا نام ہے جب جوا کھیلا یا شراب پی تو اَفعال بگڑ چکے پھر عزت کہاں! ایسے ہی پردہ داروں میں جو زِنا ہوجاتا ہے اُن کو پردہ دار کہنا باعتبارِ ما کان (یعنی پہلے کے اِعتبارسے) ہوگا یا باعتبارِ رسم کے ہوگا ورنہ پردہ ٹوٹنے کے بعد ہی تو اِس فعل کی نوبت آئی۔ غرض یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے جو پردہ کے خلاف ہیں اَور یہ خیال غلط ہے کہ زِنا سے حفاظت سد ِذرائع کے بغیر ہوسکتی ہے۔ جب شریعت اِس کو ایسا مشکل سمجھتی ہے کہ اِ س کے لیے ذرائع اَور تدابیر کی ضرورت سمجھتی ہے تو وہ واقعی میں مشکل ہی ہے۔ شریعت کی نظر ہم سے کہیں غامض ہے اُس کے سامنے ہماری تحقیق کیا چیز ہے اَور پھر وہ کچھ تحقیق بھی تو ہوصرف تقلید اَور خود رائی کا نام تو تحقیق نہیں ہو سکتا۔ ( اَلکاف ملحقہ مفاسد گناہ ص ١٧٥) عورتوں کو پردہ میں رکھنے کی ایک اَور شرعی دَلیل : اَلْمُحْصَنٰتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ دو صفت ہیں تو اِسم فاعل کا صیغہ لائے ہیں یعنی اَلْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ مگر اَلْمُحْصَنٰتِ اسم ِ مفعول کا صیغہ لایا گیا ہے اَور اِس طرح لانے سے ہمیں ایک سبق دیا گیا ہے جس کی ضرورت چودھویں صدی میں آکر (زیادہ) واقع ہوئی وہ یہ کہ اِس میں مردوں کو پردہ کی تاکید کی گئی ہے کیونکہاَلْمُحْصَنٰتِ کے معنی ہیں پار سا رکھی ہوئی عورتیں یعنی مرد اِن