ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
عربی زبان کی خصوصیات و اِمتیازات ( محترم جناب مضطر عباسی صاحب ) اِس وقت دُنیا میں کم وبیش ساڑھے تین ہزار زبانیں اَور بولیاں رائج ہیں، زبانوں کی کثرت اَور بولیوں کے اِختلاف نے اَقوام ومِلَّل کے معمولی اَور سطحی نوعیت کے اِختلافات کو شدید اَور خطرناک بنادیا ہے، برصغیر پاک وہند کے مشہور عالِم اَور لسانیات کے فاضل علّامہ سیّد سلیمان ندوی نے ١٩١٥ء میں فرمایا تھا : '' اگر ہندوستان ایک مُلک بننا چاہتا ہے اَور اُس کے قومی تعلیمی اَور سیاسی خیالات کو بحیثیت ایک قوم اَور ایک مُلک کے ترقی کرنا ہے تو ایک مشترکہ زبان کے بغیر چارہ نہیں۔''(نقوشِ سلیمانی ص ٦) اَور دس سال بعد ١٩٢٥ء میں اِرشاد فرمایا تھا :'' اِس وقت کوئی ایسا عقلمندہندوستان میں نہیں جو اِس مُلک کے لیے ایک عام اَور مشترک زبان کی ضرورت سے اِنکار کرے، اگر ہندوستان کو ایک قوم بننا ہے تو مقامی زبانوں کے سوا ایک نہ ایک عام زبان بنانی پڑے گی۔''(نقوشِ سلیمانی ص ٢٢٦) علّامہ ندوی صاحب کی اِن عبارتوں سے اِس اَمر کی تصدیق و تائید ہوتی ہے کہ اِنسانوں میں اِتحاد اَور تعاون کے لیے ایک عام اَور مشترک زبان کا ہونا ضروری ہے۔ اِنسان کی مادّی اَور معاشرتی ترقی کا راززبان کی وسعت اَور ترقی میں ہے، اگر اِنسان دُوسرے جانداروں کی طرح اپنی زبان کو چند آوازوں تک محدود رکھتا تو مختلف اَفراد ،قومیں اَور نسلیں ایک دُوسرے کے تجربات سے اِستفادہ نہ کرسکتیں اِس لیے کہ اِنسان کی تمام تر ترقی باہمی تعاون ، ایک دُوسرے سے ہمدردی اَور اِفہام وتفہیم کی بدولت ہوئی ہے اَور یہ اُمور ایک ترقی یافتہ زبان کے بغیر