ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
وہاں(آخرت میں) جائے گی تو پھر اِدراک کر سکے گی یا جسم کے جو اَجزاء منتخب ہوجائیں گے اَور رُوح کے ساتھ دائمی جنہیں قرار دے دیا جائے گا وہ اَجزاء ایسے ہوں گے کہ اُنہیں (قوت اور) حکم رُوح والا حاصل ہوگا وہ دیکھ سکیں گے رؤیت ِباری تعالیٰ وہاں ہو سکے گی یہاں دُنیا میں جسم کا معاملہ ایسا نہیں ہے یہاں تو جسم کے اَجزاء بے شمار پیدا ہوتے ہیں اَور فناء ہوتے ہیں آخر ہر آدمی ایک پاؤ ڈیڑھ پاؤ ڈھائی پاؤ تین پاؤ کھاتا ہے پیتا ہے یہ کہاں جاتا ہے یہ بن بھی رہے ہیں فناء بھی ہو رہے ہیں اَجزاء تو پتہ نہیں کتنے اَجزاء اِنسان اپنی زندگی میں رَوز فناء کرتا ہے اَگر وہ فناء نہ ہوں بلکہ جمع ہوتے رہیں اَور رَوزانہ کا اِس کا سیر بھر کا اِضافہ ہوتا رہے تو اِنسان پہاڑ کے برابر بن کر مینار کی طرح کھڑا ہوجائے گا لیکن یہ نہیں ہے بلکہ فناء بھی ہورہے ہیں ساتھ ساتھ۔ یہاں اِحسان کے معنٰی یہی ہیں کہ بس ایک یقین کہ اُس کی ذاتِ پاک موجود ہے گویا میں اُسے دیکھ رہا ہوں اَور وہ نور ہے مگر ایسانہیں ہے جیسے یہ روشنیاں ہیں اِن سے بالا ہے اَور یا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ ''شریعت'' و'' طریقت'' کا فرق : یہ شریعت طریقت وغیرہ کے بارے میں میں نے شاید پہلے بھی بتلایا تھا کہ جو شرعی اَحکام ہیں اِن کا نام'' شریعت'' ہے اَور اِن کی عادت بنالے آدمی تو اِس کا نام'' طریقت ''ہے تو اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ شریعت اَور طریقت جدا جدا چیزیں ہیں تو جدا اِسی حد تک ہیں کہ ایک ہے اَحکام کا جاننا اَور ایک ہے اَحکام کا عادت بنالینا اِس حساب سے دونوں میں بڑا فرق ہے اَحکام کا جاننا تو'' علم'' ہے وہ تو پڑھ کر بھی آسکتا ہے اَور اُس کی عادت بنانا یہ'' عمل'' ہے تو اِس کا نام طریقت ہے کہ اگر اَحکام ِ شرعیہ عادت بن جائیں جیسے صحابہ کرام اَوریا جو بھی عمل کرنا شروع کردے مسلمان تو یہ طریقت ہے ۔