ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
کام دیں۔ یہ سر ٹیفکیٹ ایسی دستاویزات تھیں جو شرعی بنیادوں پر قائم تھیں جن میں سب سے اہم بنیاد اَلْغُنْمُ بِالْغُرْمِ کی تھی یعنی یہ کہ جہاں نفع ہے وہیں نقصان ہے۔ پھر یہ سر ٹیفکیٹ اِس لحاظ سے نمایاں تھے کہ اِن کے نقدی میں منتقل ہونے کی لچک (Flexibility) بھی تھی۔ جنوری ٢٠٠٢ء میں رابطہ عالم اِسلامی نے مروجہ سودی سندات کی حرمت کا فتوی جاری کیا، اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ قرضوں کے صکوک کا ثانوی بازار میں لین دین جائز نہیں ہے۔ مئی ٢٠٠٣ء میں ھیئة المحاسبة والمراجعة للموسسات المالیة الاسلامیة (AAOIFI)نے صکوک کی اَنواع و اِقسام کو، اُن کے خصائص کو اَور جن اَحکام و ضوابط کا اِن کو پابند ہونا چاہیے، اِن سب اُمور کو طے کیا۔ مارچ ٢٠٠٤ء میں مجمع فقہ اِسلامی نے صکوک کی ایک قسم یعنی صکو ک ِ اِجارہ کے شرعی اَحکام و ضوابط طے کیے اَور ہدایت کی کہ صکوک کی ایک اَور قسم یعنی اُجرت پر دی ہوئی جائیداد واَشیاء کی ملکیت کے صکوک کے اِجراء کا جائزہ لیا جائے اَور اِسی طرح موصوف فی الذمہ کے اِجارے کے صکوک کے اِجراء اَور اُن کی خریدو فروخت کے حکم کا بھی جائزہ لیا جائے۔ جون ٢٠٠٦ء میں مجمع فقہ اِسلامی نے صکوکِ مضاربت کے ایک اہم پہلو سے متعلق لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ایک خصوصی اِجلاس منعقد کرنے کی سفارش کی،وہ پہلو یہ تھا کہ جب صکوکِ مضاربت کے مقابلہ میں موجودات صرف ایک طرح کے نہ ہوں مثلاً صرف اَشیاء یا صرف منافع نہ ہوں بلکہ مِلی جُلی ہوں مثلاً اَشیاء بھی ہوں، منافع بھی ہوں، نقدی بھی ہو اَور قرض بھی ہو، تو اِس صورت میں صکوک کے کیا اَحکام ہوں گے۔ ستمبر ٢٠٠٧ء میں آئی ایم ایف (IMF) کا صکوک کے بارے میں یہ کردار سامنے آیا کہ ایک تو اُس نے تاکید کی کہ صکوک کا حجم چار گنا کر دیا جائے ۔ دُوسرے اُس نے اِس بات کی توثیق کی کہ دُنیا کے ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد صکوک کے بازار میں داخل ہونے کا سوچ رہی ہے اَور تیسرے اُس نے کہا کہ صکوک کے لیے اِس وقت ایک نمایاں چیلنج ہے اَور وہ یہ کہ روایتی سودی سندات کے