ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
تصور پیش کیا۔یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب اُردن کے اِسلامی بینک کے لیے قانون سازی کی جا رہی تھی اَور غرض یہ تھی کہ وہ سندات ایسا آلہ وذریعہ ہوں کہ بڑے بڑے منصوبوں کی خاطر طویل المدت سرمایہ کاری کے لیے بینک اُن پر اِعتماد کر سکیں۔ خود مضاربہ کی سندات کا تصور اَور پھر اِس کو عملی جامہ پہنانے کا سہرا ڈاکٹر عبدالسلام عبادی کے سر ہے جبکہ وہ وزارتِ اَوقاف کی قائم کردہ علمی کمیٹیوں میں اِن سندات کے بارے میں غورو فکر (study) کر رہے تھے۔ اُن کی کوششیں بار آور ہوئیں اَور اُردن کی حکومت کو اِس بات میں پہل حاصل ہوئی کہ اُس نے مضاربہ کی سندات کے قواعد تیار کیے اَور اُن سندات کو فقہی اِجتہاد کی بنیاد پر ایک نئی اَور اِمتیازی صورت میں جا ری کیا۔ یہ سندات فورًا ہی مجمع فقہ اِسلامی کے سامنے پیش کی گئیں جس نے فقہی اِعتبار سے اِن کی اِجازت دی۔ مجمع فقہ اِسلامی کے اِس فیصلے کے بعد بینک اِسلامی برائے سرمایہ کاری(البنک الاسلامی للتنمیة)نے سرمایہ کاری کی شہادات (Certificates) جاری کیں جو سرمایہ لگانے والوں کی ملکیت کی نمائندگی کرتی تھیں۔ اکتوبر ١٩٨٦ء میں مضاربہ کی سندات کا اَور سرمایہ کاری کی سندات کا اِجراء جب پورا ہوا تو مجمع فقہ اِسلامی نے سندات کے موضوع کی اہمیت پر زور دیااَور اِن سندات کے بارے میں درست قرارداد طے کرنے میں مدد دینے کے لیے ماہر اہلِ علم کو ذمہ داری سوپنی۔ فروری ١٩٨٨ء میں مجمع فقہ اِسلامی نے مضاربہ کے صکوک کے لیے شریعت کی رُو سے ایک قابلِ قبول دَستورُ العمل جاری کیا۔ مارچ ١٩٩٠ء میں مجمع فقہ اِسلامی نے ایک فتوی جاری کیا جس کا حاصل یہ تھا کہ مروجہ سندات (Bonds) حرام ہیں اِس لیے اِن کے متبادل صکوک و سندات جو مضاربہ کی بنیاد پر ہوں اُن کو اِختیار کیا جائے۔ ١٩٩٩ء میںسوڈان کے مرکزی بینک نے اِسلامی مالیاتی دَستاویزات کے طور پر مرکزی بینک کے مشارکہ سر ٹیفکیٹ اَورحکومت کے مشارکہ سر ٹیفکیٹ جاری کیے تاکہ یہ شرعی طریقے پر کھلے بازار کا