ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2012 |
اكستان |
|
اِن کا بڑا حصہ ہوگا۔ اِن کے علاوہ اِسلامی صکوک میں مندرجہ ذیل فائدے ہیں : (١) بہت بڑے بڑے منصوبے کہ جن میں کسی ایک جانب سے مکمل تمویل و سرمایہ کاری ممکن نہیں اِن میں اِسلامی صکوک کے ذریعہ مطلوب تمویل ممکن ہے۔ (٢) وہ سرمایہ کار جو اپنے فالتو اَموال کو بڑھانا چاہتے ہیں اَور ساتھ میں یہ بھی چاہتے ہیں کہ ضرورت کے وقت اِس کو نقدی میں تبدیل کرلیں، اِسلامی صکوک اِن سرمایہ کاروں کی اِس ضرورت کوپورا کرتے ہیں کیونکہ صکوک میں یہ بات پیش ِ نظر ہے کہ ثانوی بازار (Secondary Market) میں اِنکی بھی خرید و فروخت ہو سکے۔ غرض سرمایہ کار کو جب بھی اپنے لگائے ہوئے سرمایہ کی یا بعض سرمایہ کی ضرورت ہو تو اُس کے لیے ممکن ہو کہ وہ اپنے تمام یابعض صکوک فروخت کر کے اَصل مالیت اَور جو کچھ نفع ہوا ہو وہ سمیٹ سکے۔ (٣) نقد رقم فراہم کرنے کا یہ عمدہ طریقہ ہے جواِسلامی بینک اَور اِسلامی مالیاتی اِدارے اِختیار کر سکتے ہیں یاجن کے ذریعہ سے وہ دوبارہ نقدی کا اِنتظام کر سکتے ہیں۔ (٤) اِسلامی صکوک مال کی عادلانہ تقسیم کا ایک ذریعہ ہیں کیونکہ اِن کی وجہ سے تمام سرمایہ کار منصوبے کے حقیقی نفع حاصل کر سکتے ہیں۔ اِس طرح مال چند گنتی کے سرمایہ داروں میں سمٹنے کے بجائے وسیع حلقے میں پھیل سکتا ہے۔ یہ بھی اِسلامی اِقتصادیات کا اَہم ہدف ہے۔'' اِسلامی صکوک کی اِبتداء اَور اُن کے اِرتقاء کی تاریخ شیخ علاء الدین زعتری اپنے مقالے ''الصکوک '' میں لکھتے ہیں : سب سے پہلے اُردن کی حکومت نے 1978ء میں مضاربہ کی سندات (بانڈز:Bonds ) کا