ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2011 |
اكستان |
|
فاران ہیومن رائٹس آف پاکستان کے اَسد اِقبال بٹ، ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر حیدر عباس رضوی، سندھ ترقی پسند پارٹی کے علی حسن چانڈ یو، عوامی تحریک کے قادر رَانڈو، عوامی پارٹی کے حسن ناصر، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے غلام شاہ اَیڈوکیٹ، سابق وفاقی وزیر قانون اِقبال حیدر اَیڈو وکیٹ سمیت اکثر مقررین نے بالواسطہ یا بِلا واسطہ اپنی تقاریر میں تشدد کے پھیلاؤ کا ذمہ دار مدارس، دینی طبقے اَور مذہبی جماعتوںکو قرار دیتے ہوئے اِلزامات کی بوچھاڑ کردی۔ لیکن آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء کو اُس وقت شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب ایک مقرر نے آکر مدارس کا اِتنے مدلل اَنداز میں اَور جذباتی سٹائل میں دفاع کیا کہ اُن کے تمام اِلزامات دھرے کے دھرے رہ گئے اَور اُس نے کانفرنس کا پورہ رُخ ہی بدل دیا، جی ہاں! یہ مقرر جمعیت علماء اِسلام سندھ کے سیکرٹری اِطلاعات و جے یوآئی کراچی کے جنرل سیکرٹری محمد اَسلم صاحب غوری اَیڈووکیٹ تھے جنہوں نے سیکولر طبقہ کی اِس کانفرنس میں مدارس کا بہترین اَنداز میں دفاع کر کے اپنے اَسلاف کی تابندہ روایات کو زندہ رکھا اَور تشدد کی اَصل وجوہات و حقائق کو ایسا کُھل کر بیان کیا کہ پورا ہال اِن کے خیالات سے اِتفاق کرنے پر مجبور ہوگیا۔ محمد اسلم صاحب غوری نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تشدد کیا ہے؟ اِمتیاز عالم صاحب اَور میرے بھائی اِمتیاز فاران نے ایک'' اِمتیاز '' برتا ہے کہ تشدد کا ایک حصہ دِکھایا اَور تشدد کا صرف ایک رُخ زیر بحث رہا ۔آپ نے معاشی محرومی کی بات نہیں کی، آپ نے بیروزگاری کی بات نہیں کی، آپ نے صوبوں کے حقوق اَور ملازمتوں کی فروختگی کی بات نہیں کی، آپ نے لاء اینڈ آرڈر کنٹرول کرنے والی ایجنسیوں کی بات نہیں کی، آپ قوم کو ایک رُخ کیوں دِکھانا چاہتے ہیں؟ یہاں آپ تشدد سے پاک پاکستان کی بات کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اِس پرتو بات کریں کہ تشدد ہے کیا؟ جب ہم خیبرپختون خواہ جاتے ہیں پنجاب میں جاتے ہیں تو وائلنس کی شکل کچھ اَور ہوتی ہے، جب بلوچستان جاتے ہیں تو وائلنس کی شکل اَور ہے، جب کراچی آتے ہیں تو وائلنس کی اَور شکل ہے ، جب اَندرونِ سندھ دیکھتے ہیں تو تشدد کی شکل کچھ اَور نظر آتی ہے۔ کیا کراچی میں جو خونریزی ہو رہی ہے جو میرے روشن خیال دوست کر رہے ہیں وہ بھی مدارس کر رہے ہیں؟ میں آج ریکارڈ پر ایک بات لانا چاہتاہوں میری