ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2011 |
اكستان |
|
ہماری کمر ٹوٹ گئی، صلح کے بعدجب حسن رضی اللہ عنہ کو فہ آئے تو ہماری جماعت کے ایک شخص اَبو عامرسفیان نے غصہ میں کہا اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مُذَلِّلَ الْمُؤْمِنِیْنَ مسلمانوں کے رُسوا کرنے والے اَلسلام علیک، اِس طنزیہ اَور گستاخانہ سلام پراِس صبروتحمل کے پیکر نے جواب دیا:اَبو عامر ایسا نہ کہومیں نے مسلمانوں کو رُسوا نہیں کیااَلبتہ ملک گیری کی ہوس میں مسلمانوں کی خونریزی پسند نہیں کی ۔ ١ اِمام نووی لکھتے ہیں کہ چالیس ہزار سے زیادہ آدمیوں نے حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اَور وہ سات مہینہ حجاز، یمن ، عراق اَور خراسان وغیرہ پر حکمران رہے اُس کے بعد اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ شام سے اُن کے مقابلہ کو نکلے جب دونوں قریب ہوئے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اَندازہ ہوا کہ جب تک مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کام نہ آجائے گی اُس وقت تک کسی فریق کا غلبہ پانا مشکل ہے اِس لیے چند شرائط پرآپ اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دست بردار ہو گئے اَور اِس طرح رسول اللہ ۖ کا یہ معجزہ ظاہر ہوگیا کہ میرا یہ لڑکاسیّد ہے اَور خدا اِس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دُوسرے فرقوں میں صلح کرائے گا ۔ ٢ شیعانِ علی اِس صلح کوجس نظر سے دیکھتے ہیں اَور اِس کے بارے میں اُن کے جو جذبات تھے، اُن کا اَندازہ اُن خطابات سے ہو سکتا ہے جس سے وہ اِس سردارِ خلدِّ برین کو مخاطب کرتے تھے''مُذَلِّلَ الْمُؤْمِنِیْنَ'' مسلما نوں کو رُسوا کرنے والے '' مُسَوِّدُ وُجُوْہَ الْمُسْلِمِیْنَ ''مسلمانوں کو رُوسیاہ کرنے والے ''عَارالْمُؤْمِنِیْنَ''ننگ ِمسلمین ، یہ وہ خطابات تھے جن سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خطاب کیا جاتا تھا ۔ اِس سے معلوم ہو تا ہے کہ عام لوگ صلح اَور دستبرداری کو کس درجہ نا پسند کرتے تھے ۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ ایسے اَمن پسند ، صلح جو ، نرم خو تھے کہ اُنہوں نے اَوّل یوم ہی سے اِرادہ کر لیا تھا کہ اَگر بِلا کسی خونریزی کے اُنہیں اُن کی جگہ مل گئی تو لے لیں گے ورنہ اِس کے لیے مسلمانوں کا خون نہ بہا ئیں گے۔ طبری کا بیان ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ چالیس ہزار آدمی تھے لیکن آپ جنگ کر نا نہیں چاہتے تھے بلکہ آپ کا خیال تھا کہ اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کچھ مقرر کرا کے دستبردار ہوجائیں چنانچہ جس وقت آپ نے عراقیوں سے بیعت لی تھی اُسی وقت اِس عزم کو اِشارةًظاہر فرما دیا تھا۔ ١ اِستیعاب ج ١ ص ٤٣ اَور مستدرک حاکم ج ٣ تذکرہ حضرت حسین ٢ تہذیب الاسماء واللغات نووی ج ١ ص ١٥٩