ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2011 |
اكستان |
|
یُّقِیْمَ الْحَدَّ کَسَّرَ ثَمْرَتَہ ۔ ( الہدایہ ص ٥٠٩ ) ''یعنی اِمام (حاکم ) اُسے ایسے کوڑے سے مارنے کا حکم کرے گاجس میں ثمرہ نہ ہو(سخت گرہ دار نہ ہو اَور نہ ہی دُہرا ہو) (اَور) درمیانی درجہ کی مار کا حکم دے گاکیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب حد لگانے کا اِرادہ فرمایا تو کوڑے کے ثمرہ کی شدت ختم کرکے حدلگائی تھی۔ '' وَالْمُتَوَسِّطُ بَیْنَ الْمُبَرِّحِ وَغَیْرِ الْمُؤْلِمِ لِاِفْضَائِ الْاَوَّلِ اِلَی الْھَلَاکِ وَخُلُوِّ الثَّانِیْ عَنِ الْمَقْصُوْدِ ۔ ( الہدایہ ص ٥٠٩ ) ''اَوردرمیانی مار کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ شدید ہو اَور نہ ایسی ہو کہ تکلیف بھی نہ پہنچے کیونکہ پہلی صورت تو ہلاکت کا باعث ہو سکتی ہے اَور دُوسری صورت میں مقصود حاصل نہ ہوگا۔'' وَیُنْزَعُ عَنْہُ ثِیَابُہ مَعْنَاہُ دُوْنَ الْاِزَارِ ۔ ( الھدایہ ص ٥١٠ ) ''اُس کے کپڑے اُتاردیے جائیں گے اِس کا مطلب یہ ہے کہ تہبند بندھا رہے گا۔ '' وَیُفْرَقُ الضَّرْبُ عَلٰی اَعْضَائِہ اِلَّارَأْسَہ وَ وَجْھَہ وَ فَرْجَہ لِاَنَّ الْجَمْعَ فِیْ عُضْوٍ وَاحِدٍ قَدْ یُفْضِیْ اِلَی التَّلَفِ وَالْحَدُّ زَاجِر لَامُتْلِف ۔ ''اَور مار اُس کے تمام اَعضاء پر لگائی جائے گی سوائے چہرہ، سراَور شرمگاہ کے کیونکہ ایک ہی جگہ پرمار نے سے کبھی ایساہو سکتاہے کہ وہ عضو ہی ناکارہ ہو جائے (یا آدمی مرجائے اَور حد کا مقصد زجر(برائی سے سختی کے ساتھ روکنا) ہے نہ کہ اِتلاف ۔ '' وَیُضْرَبُ فِی الْحُدُوْدِ کُلِّھَا قَائِمًا غَیْرَ مَمْدُوْدٍ (الھدایہ ص٥٠٩۔٥١٠) ''اَور تمام حدودمیں کھڑا کر کے حد جاری کی جائے گی نہ کہ لٹا کر۔ '' حضرت عمر رضی اللہ عنہ حد جاری کرنے کے لیے ایک شخص کومعین فرما لیاکرتے تھے ۔ اَور عبیداللہ بن اَبی ملیکہ حد لگایا کرتے تھے اِسی حدیث میں مکہ مکرمہ میں حضرت محرز بن حارثہ کا عمل بھی بتلایا گیا ہے اَور وہاں بھی اُس وقت عبیداللہ ہی نے جَلاد کے فرائض اَنجام دیے۔ وَاَمِیْرُ مَکَّةَ یَوْمَئِذٍ مُحْرِزُ بْنُ حَارِثَةَ ثُمَّ قَالَ لِعُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ مُلَیْکَہْ اِذَا