ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2011 |
اكستان |
|
اَذان کی عظمت و شان مَد کی دَرازی سے ہے ( جناب قاری محمد تقی الاسلام صاحب دھلوی ) اَلْحَمْدُ لِوَلِیِّہ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلامُ لِنَبِیِّہ وَاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَمَّابَعْدُ ! یہ حقیقت سورج سے زیادہ روشن ہے کہ دُنیاکی زبانوں میں جو عظمت و شان عربی زبان کی ہے وہ کسی اَور کی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی ۖ کو دُنیا ئے عرب کے معظم ترین خاندان قریش میں مبعوث فرمایا اَور اَپنی آخری کتاب قرآن مجید کو بھی عربی زبان میں نازل فرمایا حتی کہ اہلِ جنت کی زبان بھی عربی ہوگی، سبحان اللہ۔ قرآنِ مجید اَور اَحادیث کا تمام ترذخیرہ عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے اَرباب ِ علم و فضل نے اِس مبارک زبان کی لطافت اَور شان و شوکت کو محفوظ کیا اَور اِس کے لیے بہت سے علوم وفنون کی داغ بیل ڈالی حتی کہ اِس کے صحیح تلفظ اَور حسنِ اَداء کی حفاظت کے لیے علم ِ تجویدیعنی مخارج و صفات کی تحقیق کی اَور اِس فن کو شرعی کسوٹی بنا کر قانونی حیثیت دی اَور قرآنِ مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کو فرض قرار دیا اَور اُمت نے اِس پر اِجماع کیا۔ اَور اَن گنت صاحب ِفضل وکمال نے ہر طرف سے صرف ِ نظر کر کے اِس کے سیکھنے سکھانے کو اپنا مقصد ِ حیات بنایا اِور اِسی میں اپنی عمریں تمام کیں اَور آج بھی اُمت اِس علم و فن کی اَمین ہے ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ ۔ ہر زبان کا ایک خاص اَندازِ تکلم ہے اَور عربی زبان کی لطافت تومشہور ِ زمانہ ہے اِس کے لوازمات میں غُنَّاتْ و مَدَّاتْ تک شامل ہیں اَور یہ چیزیں بھی صحیح سند سے ثابت ہیں۔اگرچہ غنات و مدات کا معانی سے کوئی تعلق نہیں لیکن کلام میںعظمت و مبالغہ اَور حسنِ اَدا ء میں خوبیاں پیدا کرنے کے لیے ضروری ہیں اَور قرآنِ مجیدکی کوئی اَداء بھی شریعت سے باہر نہیں۔ جو لوگ مدات کو غیر ضروری سمجھتے ہیں وہ تجوید اَورعربی زبان کی لطافت سے دُور ہیں اَور یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی علم و فن سیکھے بغیرمطالعہ سے نہیں آتا۔ سب ہی جانتے ہیں کہ اَذان کے کلمات عربی ہیں اِن کو عربی اَنداز میں پڑھناضروری ہے۔ عجمیوں