ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2011 |
اكستان |
|
سے بادشاہوں کی اپنی دسترس اَور گرفت کے اِعتبار سے کہ ہمارے لیے یہ جگہ موزوں ہے شام والی یا اُس کے بعد پھر یہ عراق کا بغداد کا حصہ کہ یہ جگہ زیادہ موزوں ہے ہمارے واسطے، تو فرمایا اَلْمُلْکُ بِالشَّامِ تو سب سے پہلے جو بادشاہت کے طرز پر اِسلامی بادشاہ ہو تو وہ مَلِکِ عادل ہوگا، مَلِک ِ عادل کی بھی فضیلت آئی ہے ایک مَلِک ِ جائر ہے ظالم بادشاہ مَلِک ِ عادل ہے عادل بادشاہ ، عادل بادشاہ کی فضیلت آئی ہے اُس کی دُعا قبول ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ رسول اللہ ۖ نے اُس کے لیے بھی کہا ہے کہ جو عادِل اِمام ہوگا وہ قیامت کے دِن اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ میں ہوگا سَبْعَة یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہ ١ سات قسم کے لوگ ہیں ایسے کہ جو قیامت کے دِن اللہ کی رحمت کے سایہ میں رہیں گے اَور اُن سات میں ایک یہ بھی داخل ہے اِمام عادِل تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا دَور جو تھا وہ حکومت کا دَور تھا وہ خلافت کا نہیں تھا'' اَمیر المؤمنین'' کہلاتے ہیں وہ ،اَور اُس سے پہلے صرف ''اَمیر'' کہلاتے تھے یعنی گور نر بعد میں اَمیر المؤمنین ۔ بعد والوں کے لیے حضرت معاویہ کا طرز ممکن العمل ہے : اَور آج کے واسطے مقتداء جو ہیں وہ حضرت معاویہ ہیں حضرت علی یا حضرت عثمان یا حضرت عمر یا حضرت اَبو بکر رضی اللہ عنہم کا نام لینا تو بہت مشکل کام ہے یعنی گنجائش پر جو شریعت نے دی ہیں اُن پر عمل کر کے ایک طرزِ حکومت بنانا یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا کام ہے۔ تو آج کے دَور کے مقتداء جو ہیں ہمارے یہاں صلحاء یا علماء جو بھی حکومت کریں گے تو اُن کے لیے اُس طرز پر حکومت کرنا بہت مشکل کام ہے کہ اپنے لیے کچھ نہ ہو وغیرہ وغیرہ بہت سخت چیزیں ہیں یہ ،اُن کا نام لینا آسان ہے کیونکہ صرف زبان ہلتی ہے باقی اُن کے عمل کا اَور اُن کا طرز اَور طریقہ کار وہ بڑا مشکل ہے تو گنجائشوں پر عمل کہاں تک ہو سکتا ہے، یہ صحابہ کرام میں اَگر دیکھنا ہو تو پھر تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زیرِ احسان ہیں سارے کے سارے آج کے دَور کے علماء بھی اَور غیرعلماء بھی ،حکمراں بھی اَگر عدل کریں گے تو اِس سے آگے نہیں پہنچ سکتے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کیا، ناجائز حد تک وہ نہیں گئے جائز حدود تک وہ گئے ہیں، اُنہوں نے وسعت پیدا کی اَوروہ چار حضرات بس ایک نہج پر قائم رہے ہیں تو اُن میں اَور اِن میں تو بڑا فرق ہے لیکن جائز حد تک رہنا اَور اُس کا نمونہ صحابہ کرام میں ١ بخاری شریف ص ٩١