ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2011 |
اكستان |
|
قسط : ٣ ، آخری دارُالعلوم کے مردِ دَانا و دَرویش کی رِحلت ( حضرت مولانا نور عالم خلیل صاحب اَمینی،اِنڈیا ) اُستاذ اَدب عربی وچیف اَیڈیٹر ''اَلداعی'' عربی ،دارُالعلوم دیوبند حضرت رحمة اللہ علیہ کم گو اَور خاموش مزاج تھے لیکن نہ صرف اُمت ِمسلمہ بلکہ عالمی مسائل پر اَخبار نویسوں، نامہ نگاروں اَور ٹیلی وژن کے مختلف چینلوں کے نمائندوں کو (جو ملک کا سب سے بڑا اَور تاریخی اِسلامی اِدارہ ہونے کی وجہ سے دارُالعلوم کثرت سے آتے رہتے ہیں) بہت جچا تُلا اَور بصیرت مندانہ جواب دیتے تھے جس سے جہاں اُمت ِمسلمہ کے تئیں اُن کی دِل سوزی وفکر مندی کا اَندازہ ہوتاتھا وہیں عالمی حالات و واقعات سے اُن کی آگاہی اَور صحیح صورتِ حال کی اُن کی جانکاری کا بھی پتا چلتا تھا۔ وہ اَخبارات کا پابندی سے مطالعہ کرتے اَور ہندی مسلمانوں نیز عالَم کے تمام مسلمانوں کے مسائل کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔ یہ راقم جب اُن کی قیام گاہ پر حاضر ہوتا اَور صبح کا وقت ہوتا تو عموماً وہ اَخبار کے اَوراق کھولے دونوں ہاتھوں سے اُٹھائے محو مطالعہ ہوتے، راقم سلام کرتا تو اَخبار ہاتھ سے ڈال دیتے اَور مختلف داخلی وخارجی اَور ملکی وعالمی بالخصوص اِسلامی مسائل اَور حالات پر تبادلہ خیال کرنے لگتے۔ عراق کے مرحوم صدر صدام حسین نے جب کویت پر حملہ کرکے اپنے لیے، اپنے ملک کے لیے اَور عالمِ عربی کے لیے مسائل پیداکرلیے اَور اَمریکہ کے عالمِ عربی میں درآنے اَور اپنے فوجی اَڈے ہمیشہ کے لیے قائم کرلینے اَور عراق کو تباہ وبرباد کردینے کے اپنے صہیونی صلیبی منصوبے کو بہ رُوئے کار لانے کا بظاہر سبب بن گئے تو اُن ہی دِنوں (جب اَمریکہ اپنی فوجیں خلیجِ عربی کے ملکوں میں اُتارچکا تھا اَور عراقی اَفواج پر کویت کو آزاد کرانے کے بہانے ہلّہ بولنے کو تھا) سوء اِتفاق کہ راقم کے پاؤں کے بائیں تلوے میں شدید زخم تھا اَور اُس کے لیے چلنا پھرنا دُشوار تھا، حضرت مرحوم ایک روز ١١۔١٠بجے صبح کو اکیلے اُس کی رہائش گاہ ''اَفریقی منزل قدیم'' تشریف لائے، بمشکل چائے لی، پھر اُس وقت کے عالمِ عربی کے نازک حالات پر تبادلہ خیال کرنے لگے، فرمایا: مولانا! اَب تو سارے ہندوستانی مسلمان صدام حسین کے ساتھ ہیں۔ حضرت