ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2011 |
اكستان |
|
جب بچپن میں اَولاد کے اَخلاق کی اِصلاح نہ ہو اَور تعلیم نہ دی جائے توبڑے ہو کر جب اُس کے ہاتھ میں ریاست آئے گی تو اُس کا یہی اَنجام ہوگا جو اِن نواب صاحب کا ہوا۔ (الحدود القیود۔ التبلیغ) اَولاد خبیث اَور بدمعاش کیسے ہوجاتی ہے : اَولاد کے زیادہ تر خبیث (بدمعاش) ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اَولاد کو لاڈ پیار دُلار بہت کیا جاتا ہے۔ بچپن میں اُن کے اَخلاق خراب کر دیے جاتے ہیں کہ چاہے وہ کسی کو گالی دے یا کسی کو مارے پیٹے ، دُلار کی وجہ سے کوئی اُسے کچھ نہیں کہتا اَور کہناسننا کیسا۔ بعض عورتیں تو اِس کی تمناکرتی ہیں کہ ہمارے بچے گالی دینے کے قابل ہوجائیں چنانچہ ایک عورت نے منت مانی تھی کہ اگر میرے لڑکا ہو اَور وہ ماں کی گالی دے کر گھر میں آئے تومیں اللہ واسطے پانچ روپے کی مٹھائی تقسیم کروں گی۔ توبھلاایسی عورتیں اَولادکو گالی دینے سے کیا خاک روکیں گی۔ (اسی طرح) بعض لوگ بچوں سے اپنی داڑھی کھنچواتے ہیں اپنے کو گالیاں دِلواتے ہیں اَور کچھ نہیں کہتے۔ ایسی اَولاد بڑی ہوکراِن (ماں باپ) کو بھی گالیوں سے یادکرتی ہے اَور بعض لڑکے تو ایسے جلاد ہوتے ہیں کہ بیوی کے مقابلے میں ماں کو لاٹھیوں سے مارتے ہیں (اُس وقت یہ ساری تمنائیں خاک ہوجاتی ہیں)۔ (اَسباب الغفلة ملحقہ دین ودُنیا) بچوں کے اَخلاق اَورعادتیں کیسے خراب ہوجاتی ہیں : ہمارے یہاں ایک اُستاد ہیں اُن کے متعلق سنا گیا ہے کہ وہ اپنے لڑکوں کو دُوسرے اُستاد کے یہاں بھیجتے ہیں کہ جا کر اُس کے مکتب کی چٹائیاں توڑ ڈالیں ۔ بتلائیے جب بچپن ہی سے یہ حالت ہوگی تو بڑے ہوکر اِن کی کیا اِصلاح ہوگی۔ اکثرکہتے ہیں بچہ وہی ہے جو شوخ مزاج ہو حالانکہ شوخی دُوسری چیزہے اَور شرارت دُوسری چیزہے۔ اِنسان اپنے اَبنائے نوع (یعنی اپنے جیسے لوگوں )سے سبق لیتا ہے جو حالت دُوسرے کی دیکھتا ہے وہی خود اِختیار کرتا ہے۔لوگ سمجھتے ہیں کہ بچہ اپنی عمر کو پہنچ کر (یعنی بڑا ہوکر )خود ہی سنبھل جائے گا یہ غلط ہے بلکہ بچہ جب بولنے پر بھی قادر نہیں ہوتا اُسی وقت سے اُس کے دماغ میں دُوسروں کی تمام حرکتیں ہوتی ہیں اَور وہ اُن سے متاثر ہوتا ہے ۔ (ضرورة الاعتناء با لدین ملحقہ دین ودُنیا)