ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2011 |
اكستان |
|
نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہوتا ہے : منزل پہ مجھ کو دیکھ کے حیراں تو سب ہوئے لیکن کسی نے پاؤں کے چھالے نہیں دیکھے وہ دارُالعلوم کے معاملات میں بھی اِسی لیے بہ عجلت کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے کیونکہ عجلت پسندی، جذباتیت، سریع الانفعالی سے وہ نآشنائے محض تھے۔ بہت خوشی اَور بہت غم کی وجہ سے بہت زیادہ مثبت اَور منفی طور پر متاثّر ہوجانا اَوراِس مثبت اَور منفی تاثّر کے نتیجے میں کوئی کام کرگزرنا اُن کے بس کی بات نہ تھی۔ وہ رائے، فکر اَور سوچ کو بھی اُسی طرح پکاتے تھے جس طرح دیر میں اَور بمشکل گلنے والی چیز کو تادیر اَور کئی زاویوں سے پکایا جاتا ہے۔ اِس کی وجہ سے بعض دفعہ وہ اُن باتوں کے لیے بھی بعجلت فیصلہ نہیں لے پاتے تھے جن کے حوالے سے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ معمولی چیزیں ہیں اَور اِنھیں تو مہتمم صاحب کو ضرور ہی کرلینا چاہیے۔ لوگوں کے نزدیک اُن باتوں میں دیرکرنے سے نقصان کا پہلو مُتَصَوَّر رہتا تھا لیکن حضرت کے نزدیک خسارے کا کوئی پہلو نہیں ہوتا تھا کیونکہ اُن کا اِیمان تھا کہ جو کام بھی بہت سوچ سمجھ کے کیا جائے اُس میں کسی نقصان کا کوئی اِحتمال نہیں ہوتا، سارا نقصان اُن کاموں میں ہوتا ہے جو بعجلت اَور بے سوچے کرلیا جاتا ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ مہتمم صاحب کی درازیِ عمر میں جہاں اُن کی نیکی خدا کی حکمت اَور دارُالعلوم کے لیے اُن سے تادیر کام لینے کی سعادت سے اُنھیں بہرہ ور کیے رہنے کی اُس کی مشیت کا دخل تھا، وہیں اُن کی یہ خوبی بھی ظاہری سبب کے درجے میں کارفرما رہی کہ وہ بڑے نازک سے نازک وقت میں بعجلت اَور بار بار متاثر ہونے کے مریض نہیں تھے۔ جہاں وہ بڑے دماغ کے اِنسان تھے وہیں وہ بڑے مضبوط اَعصاب کے آدمی بھی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اَگر وہ شروع سے ہی علم وتدریس کو اپنا مشغلہ بناتے تو شاید وہ بڑے دانشور وبصیرت مند و بصیرت اَفروز مدرس ہوتے اَور اُن کے علم وفکر کے نتائج بہت کار آمد اَور اُن سے اِستفادہ کرنے والے طلباء گہری سوچ، سنجیدہ رائے اَور دانش مندانہ غور وفکر کے حامل ہوتے اَور خود اُن کی خاموشی گویائی میں تبدیل ہوکر علم وفکر کے موتی رولنے میں مددگار ہوتی اَور اُمت اَورمِلّت کے لیے بڑے فائدے کا ضامن ہوتی۔ حضرت رحمة اللہ علیہ بہت مہمان نواز تھے۔ مہمان نوازوں کا تناسب اِنسانی معاشرے میں بہت