ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2011 |
اكستان |
|
کے ذریعہ سے خداسے اِس کا فیصلہ چاہیں اَور اگر تم زندگی چاہتے ہو تو ہم اِ سے بھی منظور کریں اَور تمہارے لیے رضا حاصل کریں ۔'' شاعری : شعر و شاعری کا بھی آپ ستھرا مذاق رکھتے تھے اَورخود بھی کبھی کبھی شعر کہتے تھے لیکن جس میں مبالغہ اَور خرافات کے بجائے اَخلاقی اَور حکیمانہ خیالات ہوتے۔ ابن رشیق نے کتاب العمدہ میں آپ ایک شعر اِس واقعہ کے ساتھ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ خضاب لگا کر باہر نکلے اَور اِرشاد فرمایا ۔ نَسْوَدُّ اَعْلَاھَا وَنَابٰی اُصُوْلَھَا فَلَیْتَ الَّذِیْ یَسْوَدُّ مِنْھَا ھُوَالْاَمَلْ (کتاب العمدہ ص ١٤) حکیمانہ اَقوال : اِن کے علاوہ تاریخوں میں بکثرت آپ کے حکیمانہ مقولے ملتے ہیں جن میں ہر مقولہ بجائے خو د دفتر نکات ہے اِن میں سے بعض مقولے یہاں پر نقل کیے جاتے ہیں ۔ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ زندگی بسر کرنے کے اِعتبار سے سب سے اچھی زندگی کون بسر کرتا ہے؟ فرمایا جواپنی زندگی میں دُوسروں کو بھی شریک کرے ۔ پھرپوچھا سب سے بری زندگی کس کی ہے؟ فرمایاجس کے ساتھ کوئی دُوسرا زندگی نہ بسر کر سکے۔ فرماتے تھے کہ ضرورت کا پورا نہ ہونا اِس سے کہیں بہتر ہے کہ اِس کے لیے کسی نااہل کی طرف رجوع کیا جائے۔ ایک شخص نے آپ سے کہا مجھ کو موت سے بہت ڈر معلوم ہوتا ہے۔ فرمایا:اِس لیے کہ تم نے اپنا مال پیچھے چھوڑدیا اگر اُس کو آگے بھیج دیا ہوتا تو اُس تک پہنچنے کے لیے خوف زدہ ہونے کے بجائے مسرور ہوتے۔ فرماتے تھے کہ مکارمِ اَخلاق دس ہیں: زبان کی سچائی، جنگ کے وقت حملہ کی شدت، سائل کو دینا، حسن ِ خلق، احسان کا بدلہ دینا، صلۂ رحمی ،پڑوسی کی حفاظت وحمایت، حق دار کی حق شناسی، مہمان نوازی اَور اِن سب سے بڑھ کر شرم و حیائ۔ اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ اَکثر آپ سے اَخلاقی اصطلاحوں کی تشریح کراتے تھے اَور حکومت کے