ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2011 |
اكستان |
|
فضل وکمال : آنحضرت ۖ کی وفات کے وقت حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عمرآٹھ سال سے زیادہ نہ تھی، ظاہر ہے کہ اِتنی سی عمر میں براہِ راست فیضانِ نبوی سے زیادہ بہرہ یاب ہونے کا کیا موقع مل سکتا ہے تاہم آپ جس خانواوۂ کے چشم وچراغ تھے اَور جس باپ کے آغوش میں تربیت پائی تھی وہ علومِ مذہبی کا سر چشمہ اَور علم وعمل کا مجمع البحرین تھا۔ اِس لیے قدرةًاِس آفتاب علم کے پر توسے حسن رضی اللہ عنہ بھی مستنیرہوئے چنانچہ آنحضرت ۖ کی وفات کے بعدمدینہ میں جو جماعت علم واِفتا ء کے منصب پر فائز تھی اُس میں ایک آپ کی ذاتِ گرامی بھی تھی اَلبتہ آپ کے فتاویٰ کی تعد بہت کم ہے ۔(اعلام الموقعین ج ١ ص ١٢) حدیث : آپ کی مرویات کی تعداد کل تیرہ ہے اَور اُن میں سے بھی زیادہ تر حضرت علی رضی اللہ عنہ اَور ہند سے مروی ہیں۔(تہذیب الکمال ص ٧٨) آپ کے زُمرہ رواة میں حضرت عائشہ صدیقہ، حسن بن حسن، عبداللہ ، اَبوجعفر، خبیر بن نفیر ، عکرمہ ، محمد بن سیرین اَورسفیان بن لیل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب ج ٢ ص ٢٩٥) خطابت : مذہبی علوم کے علاوہ آپ کو اُس زمانہ کے مروجہ فنون میں بھی ورک تھا۔ خطابت اَور شاعری اُس زمانہ کے بڑے کمالات تھے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ عرب کے اَ خطب الخطباء کے فر زند تھے۔ اِس لیے خطابت آپ کو ورثہ میں ملی تھی اَور آپ میں بچپن ہی سے خطابت کا مادّہ تھا۔ اُس زمانہ میں ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا کہ تم خطبہ دو میں اِس کو سنوں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا آپ کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے حجاب معلوم ہوتا ہے۔ یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ آڑمیں چلے گئے اَور حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کرنہایت فصیح وبلیغ خطبہ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا کیوں نہ ہوبیٹے میں باپ کا اَثر ہوتا ہی ہے۔(البدایہ والنہایہ ج ٨ ص ٣٧) خطابت کا یہ کمال عمر کے ساتھ ساتھ اَور ترقی کرتا گیا اَ و ر آپ کے خطبات فصاحت وبلاغت کے ساتھ اَخلاق وحکمت اَور پند ومو عظت کا دفترہیں ۔حضرت