Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2011

اكستان

57 - 64
ہے۔ میں متعدد بار مولانا کے سامنے اُن کے اِس ہنر کو خراجِ تحسین پیش کر چکا ہوں ،وہ کسرنفسی سے کام لیتے ہوئے کبھی کوئی جملہ کس دیتے، کبھی صرف قہقہ لگادیتے اَور کبھی اپنے بھاری ہاتھ سے کندھا تھپتھپا کر کہتے ہیں ''باز آجاؤ''۔ خاصا کالم مولانا کے ذکر ِلطیف کی نذر ہو گیا 
لکھتے چٹھی لکھے گئے دفتر 	شوق نے بات کیا بڑھائی ہے 
میں آج صرف اُس عشائیہ کاذکر کرنا چاہتا تھاجو مولانانے ''اَپوزیشن جماعتوں'' کے قائدین کے اِعزاز میں دیا۔ ہر سیاسی مبصر تسلیم کرے گا کہ یہ پہلی بڑی اَور مثبت پیش رفت تھی۔یہ مولانا کی شخصیت ہی کا اعجازہے کہ ایک دُوسرے سے دست و گریباں عناصر بھی اُن کی چھت تلے جمع ہوگئے۔ مجھے ماضی قریب میں ایسی کوئی سنجیدہ تقریب نہیں ملتی جس میں چوہدری شجاعت حسین، مشاہد حسین سیّد، چوہدری نثار علی خان اَور  ڈاکٹر فاروق یکجا بیٹھے ہوں۔ 
ہمارے یہاں لڑائی اَور مار کٹائی کو سیاست کا جزوِلازم خیال کیا جاتا ہے۔ لڑتے لڑتے کچھ کی چونچیں گئیں اَور کچھ کی دُمیں۔ دست و گریباں رہنے کے اِس تماشے سے اہلِ سیاست کو کچھ مِلا نہ جمہوریت کو اَور نہ ہی وطن ِعزیزکو۔ لمبی لمبی آمریتیں سیاہ راتوں کی طر ح مسلط ہوتیں اَور چمگادڑوں کی طرح رگ ِگلو کا لہو  پیتی رہیں۔ 
آج بھی صورت ِ حال کچھ ایسی ہی ہے۔ پیپلز پارٹی ''مفاہمت کی سیاست'' کی دعویدار ہے لیکن اِس کی مفاہمت صرف شرکت ِاِقتدار تک محدود ہے۔ اِصلاحِ اَحوال کے لیے وہ کسی کا دَست ِتعاون تھامنے کے لیے تیار نہیں۔ معلوم نہیں مولانا فضل الرحمن کے اِس عشائیے کا مطلب و مقصود کیا ہے لیکن اُنہوں نے مستقبل کے سیاسی موسموں کے لیے اپنے آپ کو ایک محوری نکتے کے طور پر پیش کردیا ہے۔ وزارتیں چھوڑ دینے کے باوجود مولانا کے صدر زَرداری سے اَچھے مراسم ہیں، دونوں کے درمیان رابطے بھی قائم ہیں۔ 
لہٰذا کسی کو یہ تاثر نہیں لینا چاہیے کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی محاذ بنا نے جارہے ہیں۔ اَلبتہ سیّد زادہ ملتان کو ضرور چوکنا رہنا ہوگا۔ مولانا پہلے ہی نئے وزیر اعظم کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے دس نکاتی اَیجنڈے پر مذاکرات کی بے ثمری آشکار ہونے کو تھی تو صدر زرداری نے خود ایک کل جماعتی گول میز کانفرنس
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرف آغاز 4 1
3 درس حديث 7 1
4 اِسلامی جنگی مہم کے بعد مشکلات جنم نہیں لیتیں : 9 3
5 مفتوحہ علاقوں کی عورتوں کے ساتھ سلوک : 9 3
6 مفتوحہ علاقوں کے لوگ بخوشی اِسلام قبول کرتے رہے کسی پر جبر نہیں کیا گیا : 9 3
7 بادشاہوں کا ظالمانہ روّیہ : 10 3
8 حضرت اَبوبکر کی ہدایات ،ایک خاص دُعا اَور اُس کی وجہ : 11 3
9 خلافت علی منہاج النبوة اَور عام خلافت میں فرق : 12 3
10 دارُالخلافہ کی مدینہ منورہ سے کوفہ منتقلی : 12 3
11 بعد والوں کے لیے حضرت معاویہ کا طرز ممکن العمل ہے : 13 3
12 مسئلہ رجم 15 1
13 اِمام شافعی فرماتے ہیں : 16 12
14 قسط : ١٠ اَنفَاسِ قدسیہ 28 1
16 رُفقائِ سفر کے ساتھ : 28 14
17 قسط : ٢٧ تربیت ِ اَولاد 32 1
18 ( حقوق کا بیان ) 32 17
19 اَولاد کے حقوق میں کوتاہی اَور اُس کا نتیجہ : 32 17
20 اَولاد خبیث اَور بدمعاش کیسے ہوجاتی ہے : 33 17
21 بچوں کے اَخلاق اَورعادتیں کیسے خراب ہوجاتی ہیں : 33 17
22 چوری کی عادت رفتہ رفتہ ہوتی ہے : 34 17
23 آج کل کی تعلیم وتربیت کے برے نتائج : 34 17
24 بدحالی کا تدارک اَور اِصلاح کا طریقہ : 35 17
25 قسط : ٤ حضرت اِمام حسن بن علی رضی اللہ عنہما 36 1
26 حُلیہ مبارک : 36 25
27 اَزدواج کی کثرت : 36 25
28 بیویوں سے برتاؤ : 36 25
29 اَولاد : 37 25
30 ذریعہ معاش : 37 25
31 فضل وکمال : 38 25
32 حدیث : 38 25
33 خطابت : 38 25
34 شاعری : 40 25
35 حکیمانہ اَقوال : 40 25
36 اَخلاق وعادات : 41 25
37 اِستغنا ء وبے نیازی : 41 25
38 وفیات 42 1
39 قسط : ٣ ، آخری 43 1
40 دارُالعلوم کے مردِ دَانا و دَرویش کی رِحلت 43 39
41 نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہوتا ہے : 47 39
42 مولانا کی کارگاہِ سیاست 55 1
43 اَذان کی عظمت و شان مَد کی دَرازی سے ہے 59 1
44 دینی مسائل ( وقف کا بیان ) 62 1
45 وقف کیسے لازم اَور مکمل ہوتا ہے : 62 44
46 وقف کا حکم : 62 44
47 متولی وقف کی معزولی : 62 44
48 اَراضی وقف کو اجارہ طویلہ پر دینا : 63 44
Flag Counter