Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2011

اكستان

56 - 64
پھلجھڑیاں چھوڑنے کے بجائے سب کچھ اپنے کشادہ سینے میں سمیٹے رکھتے ہیں اَور پاس پڑوس والوں کو بھی خبر نہیں ہونے دیتے کہ کیا ہونے جا رہاہے۔
مولانا کا دُوسرا طرئہ اِمتیاز یہ ہے کہ وہ ہمیشہ نظریاتی اَور اَخلاقی سیاست کرتے ہیں ۔اِقتدارکے بجائے اِقدارکی سیاست ۔کچھ نقاد مِن میخ نکالتے اَور اِلزام دَھرتے ہیں کہ مولانا اُصولوں یا نظریوں سے جڑے رہنے کے بجائے وقت کی لہر کا ساتھ دیتے اَور اِقتدار یا مفادات کی شاداب چراگاہوں کی طرف نکل جاتے ہیں ۔ میراخیال ہے کہ یہ نقادنااِنصافی سے کام لیتے ہیں ۔وہ اُصولوں اَور نظریوںکا نقشہ پہلے سے بنالیتے اَور پھر مولانا کی سیاست کو اُن کی کسوٹی پر پرکھنے لگتے ہیں۔ حالانکہ صورتِ حال مختلف ہے۔ حقیقت ِاُولیٰ یہ ہے کہ مولانا کا ہر قول اَور ہر فعل خود بخود ایک اُصول اَور نظریے کا رُوپ اِختیار کر لیتا ہے جس طرح علامہ اِقبال  کی کارگاہِ فکر میں اَنجم ڈھلا کرتے تھے ۔
اِسی طرح مولانا کی کار گاہِ سیاست میں اُصول ڈھلتے اَور نظریے تخلیق پا تے ہیں مثلاً اُصول یہ ہے کہ کسی آئین شکن ڈکٹیٹر کاکسی طور سہارا نہیں بننا چاہیے ۔لیکن جب مولانا پرویز مشرف کی مشکل آسان کرنے کے لیے سترہویں تر میم جیسا کوئی کرشمہ اِیجاد کریں گے تویہ اُصول خود بخود ساقط ہوجائے گا۔تب ایک نیا اُصول جنم لے گا کہ جمہوریت کے تحفظ اَور وَردی اُتارنے کے موہوم سے وعدے کی بنیا د پر اَگرڈکٹیٹر کے تمام مکروہ اِقدمات کی توثیق کردی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ خلاصہ اِس کا یہ ہے کہ مولانا کی سیاست کومروجہ اُصولوں، نظریات، اَخلاقیات یااِقدار کی میزان میں تولنے کے بجائے مولانا کے اَقول واَفعال کو اَوّلیت  دیتے ہوئے اُصولوں اَورنظریوں کو اُن کے آئینے میں دیکھنا چاہیے ۔جانچ پرکھ کایہ پیمانہ اَپنانے والے ہر نقاد  کو اَندازہ ہوجائے گا کہ وہ غلطی پر تھا۔ 
مولانا کے اِس کمال کا تعلق اُن کے ایک اَور ہنر سے ہے جو پاکستان کے کسی دُوسرے سیاستدان کو عنایت نہیں ہوا۔ میں حضرت کے اِس ہنر کاتذکرہ پہلے بھی کئی بار کر چکا ہوں۔ یہ ہے دلیل آفرینی اَور منطق آرائی کا ہنر۔ وہ اِس مہارت کے ساتھ سیاہ کو سفید اَور سفید کو سیاہ ثابت کرسکتے ہیں کہ اَچھے خاصے چشم ِبینا  رکھنے والے بھی آنکھیں ملتے رہ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی اُن کا یہ ہنر اِس درجہ کمال کوپہنچ جاتا ہے کہ وہ عمومی طورپر معیوب خیال کی جانے والی کسی بات کے حق میں بھی ایسے دلائل لاتے ہیں کہ وہ کارِ ثواب دکھائی دینے لگتی
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرف آغاز 4 1
3 درس حديث 7 1
4 اِسلامی جنگی مہم کے بعد مشکلات جنم نہیں لیتیں : 9 3
5 مفتوحہ علاقوں کی عورتوں کے ساتھ سلوک : 9 3
6 مفتوحہ علاقوں کے لوگ بخوشی اِسلام قبول کرتے رہے کسی پر جبر نہیں کیا گیا : 9 3
7 بادشاہوں کا ظالمانہ روّیہ : 10 3
8 حضرت اَبوبکر کی ہدایات ،ایک خاص دُعا اَور اُس کی وجہ : 11 3
9 خلافت علی منہاج النبوة اَور عام خلافت میں فرق : 12 3
10 دارُالخلافہ کی مدینہ منورہ سے کوفہ منتقلی : 12 3
11 بعد والوں کے لیے حضرت معاویہ کا طرز ممکن العمل ہے : 13 3
12 مسئلہ رجم 15 1
13 اِمام شافعی فرماتے ہیں : 16 12
14 قسط : ١٠ اَنفَاسِ قدسیہ 28 1
16 رُفقائِ سفر کے ساتھ : 28 14
17 قسط : ٢٧ تربیت ِ اَولاد 32 1
18 ( حقوق کا بیان ) 32 17
19 اَولاد کے حقوق میں کوتاہی اَور اُس کا نتیجہ : 32 17
20 اَولاد خبیث اَور بدمعاش کیسے ہوجاتی ہے : 33 17
21 بچوں کے اَخلاق اَورعادتیں کیسے خراب ہوجاتی ہیں : 33 17
22 چوری کی عادت رفتہ رفتہ ہوتی ہے : 34 17
23 آج کل کی تعلیم وتربیت کے برے نتائج : 34 17
24 بدحالی کا تدارک اَور اِصلاح کا طریقہ : 35 17
25 قسط : ٤ حضرت اِمام حسن بن علی رضی اللہ عنہما 36 1
26 حُلیہ مبارک : 36 25
27 اَزدواج کی کثرت : 36 25
28 بیویوں سے برتاؤ : 36 25
29 اَولاد : 37 25
30 ذریعہ معاش : 37 25
31 فضل وکمال : 38 25
32 حدیث : 38 25
33 خطابت : 38 25
34 شاعری : 40 25
35 حکیمانہ اَقوال : 40 25
36 اَخلاق وعادات : 41 25
37 اِستغنا ء وبے نیازی : 41 25
38 وفیات 42 1
39 قسط : ٣ ، آخری 43 1
40 دارُالعلوم کے مردِ دَانا و دَرویش کی رِحلت 43 39
41 نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہوتا ہے : 47 39
42 مولانا کی کارگاہِ سیاست 55 1
43 اَذان کی عظمت و شان مَد کی دَرازی سے ہے 59 1
44 دینی مسائل ( وقف کا بیان ) 62 1
45 وقف کیسے لازم اَور مکمل ہوتا ہے : 62 44
46 وقف کا حکم : 62 44
47 متولی وقف کی معزولی : 62 44
48 اَراضی وقف کو اجارہ طویلہ پر دینا : 63 44
Flag Counter