ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2011 |
اكستان |
|
میں آ گئی ہیں تو آنحضرت ۖ کے احترام کے پیش ِنظر سب نے اپنے اپنے غلام باندی آزاد کر دیے۔ سبحان اللہ! حضرات صحابہ کرام کے اَدب کی کیا شان تھی۔اِس جذبہ کے پیش ِنظر کہ یہ لوگ سرکارِ دو عالم ۖکے سسرال والے ہو گئے اِن کو غلام بنا کر کیسے رکھیں، سب کو آزاد کر دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اِس واقعہ کے متعلق فرماتی ہیں : فَلَقَدْ اُعْتِقَ بِتَزْوِیْجِہ اِیَّاھَا مِأَةُ اَھْلِ بَیْتٍ مِّنْ بَنِی الْمُصْطَلِقِ فَمَا اَعْلَمُ امْرَأَةً اَعْظَمَ بَرَکَةً عَلٰی قَوْمِھَا مِنْھَا۔ آنحضرت ۖکے جویرہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لینے سے بنوالمصطلق کے سو (١٠٠) گھرانے آزاد ہوئے ،میں نے کوئی عورت ایسی نہیں دیکھی جو جویرہ سے بڑھ کر اپنی قوم کے لیے بڑی برکت والی ثابت ہوئی ہو۔ ٭ حضرت اُمِ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے ساتھ اِبتداء اِسلام ہی میں مکہ میں اِسلام قبول کیا تھا اَور پھر دونوں میاں بیوی ہجرت کر کے قافلے کے دُوسرے اَشخاص کے ساتھ حبشہ چلے گئے وہاں اِن کا شوہر نصرانی ہو گیا اَور چند دِن کے بعد مر گیا۔ آنحضرت ۖنے شاہِ حبشہ نجاشی کے واسطہ سے اِن کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا جسے اِنہوں نے قبول کر لیا اَور وہیں حبشہ میں نجاشی ہی نے آنحضرت ۖ کے ساتھ اِن کا نکاح کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا حضرت اَبوسفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں اَور حضرت ابو سفیان اُس وقت اُس گروہ کے سرخیل تھے جس نے اِسلام دُشمنی کو اپنا سب سے بڑا مقصد قرار دیا تھا اَور وہ مسلمانوں کو اَور پیغمبر خدا ۖ کو اَذیت دینے اَور اُنہیں فنا کے گھاٹ اُتار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ جب اِن کو اِس نکاح کی اِطلاع ہوئی تو بِلا اِختیار اِن کی زبان سے یہ اِلفاظ نکلے ھُوَ الْفَحْلُ لَا یُجْدَعُ اَنْفُہ مطلب یہ کہ وہ بلند ناک والے معزز ہیں اُن کو ذلیل کرنا آسان نہیں۔ اِدھر تو ہم اِن کو ذلیل کرنے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں اَور اُدھر ہماری لڑکی اِن کے نکاح میں چلی گئی۔ غرض اِس نکاح سے کفر کے ایک قائد کے حوصلے پشت ہو گئے اَور اِس نکاح کی وجہ سے جو سیاسی فائدہ اِسلام اَور مسلمانوں کو پہنچا اُس کی اہمیت اَور ضرورت سے اِنکار نہیں کیا جا سکتااَور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ خدا کے مدّبر اَور حکیم رسول ۖ نے اِس فائدہ کو ضرور پیش ِنظر رکھا ہو گا۔ (باقی صفحہ ٦٠ )