ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2010 |
اكستان |
|
ہوئے تو ٹیکسی والے نے ہم سے 25 درہم لیے۔ مرکیش کا دُوسرانام RED CITY ہے اِس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہاں تمام عمارتوں کارنگ سرخ ہے یہ اِس شہر کی ایک منفرد اَور اِمتیازی شان ہے۔ مراکش پر چونکہ کئی سال تک فرنچ کا قبضہ رہا ہے جس کی وجہ سے اُن کی نشانیاں اَور باقیات ابھی تک وہاں موجود ہیں غلامی کی زندگی گزارنے والی قومیں آزاد ہونے کے باوجود غلامی کا طوق اپنے اُوپر سے اُتار نے میں ناکام رہتی ہیں، اگرچہ وہ جسمانی طور پر تو آزاد ہوجاتی ہیں مگر ذہنی غلامی سے چھٹکارا نہیں پاسکتیں۔ مراکش میں فرنچ زبان کا غلبہ ہے ائیر پورٹ اَور دیگر تمام مقامات شاہراوں اَور سڑکوں پر دونوں زبانوں میں بورڈ لکھے نظر آئے ایک عربی اَور دُوسرے فرنچ میں۔ انگریزوں کے قدم اِس میں نہیں پڑے اِس لیے انگریزی زبان میں بورڈ اَور ہدایات شاذو نادر ہی لکھی دیکھیں۔ مراکش چونکہ فرنچ کالونی رہا ہے اِس لیے اِس ملک میں زیادہ سیاح فرانس سے آتے ہیں اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مراکش کے لوگ فرنچ زبان باآسانی بول لیتے ہیں اِس لیے سیاح اپنے آپ کو یہاں کسی تکلیف میں نہیں پاتے، در اَصل زبان ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے اِنسان اپنے مافی الضیمر کا اِظہار کر سکتا ہے لوگوں سے بات کر سکتا ہے اُن سے کوئی چیز پوچھ سکتا ہے مگر جس شخص کو دُوسرے ملک کی زبان سے واقفیت نہیں اُس کو سفر میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ہمارے اَور مراکشی لوگوں کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ ٹوٹی پھوٹی عربی تھی چھ دنوں میں ہم نے اپنی عربی کو بھی کافی امپر و (improve)کیا۔ مرکیش ایک قدیم اَور تاریخی شہر ہے یہ ایک عرصہ تک مراکش کا دارالخلافہ بھی رہا ہے زیادہ تر سیاح اِس شہر میں آتے ہیں اِس شہر کے دو حصے ہیں ''قدیم مرکیش اَور جدید مرکیش'' تاریخی اَور پرانی تہذیب سیرو سیاحت قدیم مرکیش میں ہوتی ہے ، جدید مرکیش ائیرپورٹ کے ملحقہ ایریا ہے جو بہت خو بصورت اَور ماڈرن علاقہ ہے پرانی عمارتوں کو اُدھیڑ کر اُن کی جگہ بڑی بڑی اَور جدید عمارتیں تعمیر کے مراحل سے گزر رہی ہیں یہاں کی صاف ستھری اَور کشادہ سڑکیں کسی جدید ترقی یافتہ ملک کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔ ہمارا ہوٹل اِس علاقہ میں ''عبد الکریم خطابی روڈ '' پر واقع تھا ہوٹل کا نام ''امین ہوٹل'' ہے ہوٹل کی بکنگ مولانا آفتاب صاحب نے انٹر نیٹ کے ذریعے کروائی تھی تین دِن کے لیے بہت مناسب قیمت پر ہم خوش تھے اَور دِ ل میں کچھ خائف بھی کہ نہ جانے ہوٹل کی کیفیت کیا ہوگی (باقی صفحہ ٥٥ )