ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2010 |
اكستان |
|
دربار میں بلایا، صحابہ ث میں حضرت جعفر بن ابی طالب صکو شاہ سے گفتگو کے لیے نمائند ہ بنایا گیا۔ مسلمانوں کے وفد سے نجاشی صنے سوال کیا کہ تم لوگوں نے اپنا دین آخر کیوں تبدیل کیا؟ اور اگر تبدیل کیا تھا تو یہودی یا نصرانی کے بجائے محمدا کو اپنا رہنما کیوں بنایا؟ اِس کاجواب دیتے ہوئے حضرت جعفر بن ابی طالب صنے نہایت قوت اور جسارت سے فرمایا کہ : اَیُّہَا الْمَلِکُُ کُنَّا قَوْمًا عَلَی الشِّرْکِ نَعْبُدُ الْاَوْثَانَ وَ نَأْکُلُ الْمَیْتَةَ وَ نُسِیْئُی الْجَوَارَ یَسْتَحِلُّ الْمَحَارِمَ بَعْضُُنَا مِنْ بَعْضٍ فِی سَفْکِ الدِّمَائِ وَغَیْرِہَا. لَا نَحِلُّ شَیْئًا وَلَانُحَرِّمُہ فَبَعَثَ اللّٰہُ اِلَیْنَا نَبِیًّا مِنْ اَنْفُسِنَا نَعْرِفُ وَفَائَ ہ وَصِدْقَہ وَاَمَانَتَہ الخ ۔۔۔ وفی روایة : فَدَعَانَا اِلَی اللّٰہِ لِنُوَحِّدَہ وَنَعْبُدَہ وَنَخْلَعُ مَا کُنَّا نَعْبُدُ نَحْنُ وَآبائُ نَا مِنْ دُوْنِہ مِنَ الْحِجَارَةِ والْاَوْثَانِ وَاَمَرَنَا بِصِدْقِ الْحَدِیْثِ ، وَاَدَائِ الْاَمَانَةِ، وَ صِلَةِ الْاَرْحَامِ ، وَحُسْنِ الْجَوَارِ ، وَالْکَفِّ عَنِ الْمَحَارِمِ، وَالدِّمَائِ وَ نَہَانَا عَنِ الْفَوَاحِشِ وَقَوْلِ الزُّوْرِ، وَاَکْلِ مَالِ الْیَتِیْمِ، وَقَذْفِ الْمُحْصَنَةِ ، وَاَمَرَنَا اَنْ نَّعْبُدَ اللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہ شَیْئًا، وَاَمَرَنَا بِالصَّلٰوةِ وَالزَّکٰوةِ وَالصِّیَامِ. (البدایة والنہایة ٣/٨٠ـ٨١) جنا ب بادشاہ !(بات یہ ہے کہ)ہم لوگ شرک پر جمے ہوئے تھے۔ ہم بتوں کی پوجا کرتے تھے اَور مردار کھایا کرتے تھے اور پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے اور ہم لوگ حرام کاموں مثلاً قتل و غارت گری (وغیرہ) کو حلال سمجھتے تھے۔ ہمارے اَند ر سے حلال وحرام کا تصور مٹ چکا تھا۔ (اِن سنگین اخلاقی حالات میں) اللہ تعالی نے خود ہمارے ہی قبیلہ میں سے ایک نبی مبعوث فرمایا جس کی وفاداری، سچائی اور امانت و دیانت سے ہم واقف ہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے ہمیں اللہ رب العا لمین کی طرف آنے کی دعوت دی تاکہ ہم اللہ کی وحدانیت پر یقین کریں اور اُسی کی عبادت کیا کریں اور ہم اللہ کو چھوڑ کر اِن پتھروں اور بتوں کی پوجا بند کردیں جن کو پہلے ہم اور ہمارے آباء و اجداد