ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی2009 |
اكستان |
|
بنیادی معلومات کا فقدان تشویش ناک حد سے گذرچکا ہے، اور ایک طرف اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ روز بروز نت نئی علمی کتابیں بازار میں آرہی ہیں، کتب خانے کتابوں سے بھرے پڑے ہیں اور دینی کتابوں کی تجارت بھی فروغ پر ہے، اِس کے علاوہ بڑی بڑی اکیڈمیاں علمی تحقیقات اور ریسرچ پر لگی ہوئی ہیں اور نئے آلات وایجادات پر بھی علمی ذخائر کو سمونے کا عمل جاری ہے، سینکڑوں کتابیں ایک ایک سی ڈی میں جمع کردی گئی ہیں اور انٹرنیٹ پر بڑی بڑی لائبریریوں کو گھر بیٹھے مطالعہ کرنے کی سہولت دستیاب ہے لیکن ظاہری طور پر علم کے اِس قدر عام ہونے کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ علم رُخصت ہوتا جارہا ہے۔ ''رسوخ فی العلم'' کی صفت کے علماء پورے عالم میں اُنگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، کتابوں کی بہتات ضرور ہے لیکن اُن کو الماریوں میں سجانے والے زیادہ ہیں مطالعہ کرنے والے کم ہیں۔ جب علماء اور طلباء کا یہ حال ہے تو عوام سے تو شکوہ ہی کیا؟ ان میں جس قدر بھی انحطاط ہو کم ہے۔ الغرض ہمارا زمانہ اگرچہ مایوسی کے آخری درجہ کا تو نہیں کہا جاسکتا لیکن رفتارِ زمانہ یہ بتارہی ہے کہ انجام کہاں تک پہنچنے والا ہے، ایسے ماحول میں ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے دائرۂ اَثر میں جس حد تک بھی ہو اپنے کو سنبھالنے کی کوشش کریں اور گناہوں اور فتنوں کی گھٹا ٹوپ اَندھیریوں میں اتباع شریعت کے چراغ روشن کیے رکھیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں ہمیں سرخروئی نصیب ہو، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر سطح پر اپنے حفظ وامان میں رکھیں اور عافیت نصیب فرمائیں۔ آمین۔(بشکریہ : ماہنامہ ندائے شاہی اِنڈیا ،ستمبر ٢٠٠٧ئ) بقیہ : تربیت ِ اولاد اَور اگر اِس سے بھی حسرت نہ جائے تو دُنیا کی حالت دیکھ کر تسلی کر لیا کریں کہ جن کے اَولاد ہے وہ کس مصیبت میں گرفتار ہیں۔ اور اِس سے بھی تسلی نہ ہوتو یہ سمجھ لیں کہ جو خدا کو منظور ہے وہی میرے واسطے خیر ہے۔ نہ معلوم اَولاد ہوتی تو کیسی ہوتی۔ اور یہ بھی نہ کر سکے تو کم اَزکم یہ سمجھے کہ اَولاد نہ ہونے میں بیوی کی کیا خطاء ہے۔ (جاری ہے)