ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
|
وَنَقَلَ ابْنُ حَجَرٍ فِیْ فَتْحِ الْبَارِیْ شَرْحِ الْبُخَارِیْ عَنِ ابْنِ الْعَرَبِیِّ رَأْیَہ فِی اتِّخَاذِ الصُّوَرِ قَائِلًا : حَاصِلُ مَا فِی اتِّخَاذِ الصُّوَرِ اَنَّھَا اِنْ کَانَتْ ذَاتَ اَجْسَامٍ حَرُمَ بِالْاِجْمَاعِ وَاِنْ کَانَتْ رَقَمًا فَاَرْبَعَةُ اَقْوَالٍ : اَلاَوَّلُ : یَجُوْزُ مُطْلَقًا عَمَلًا بِحَدِیْثِ الا رقما فی ثوب۔ اَلثَّانِیْ : اَلْمَنْعُ مُطْلَقًا۔ اَلثَّالِثُ : اِنْ کَانَتِ الصُّوْرَةُ بَاقِیَةَ الْھَیْئَةِ ، قَائِمَةَ الشَّکْلِ حَرُمَ وَاِنْ کَانَتْ مَقْطُوْعَةَ الرَّأْسِ اَوْ تَفَرَّقَتِ الْاَجْزَائُ جَازَ ۔ اَلرَّابِعُ : اِنْ کَانَتْ مِمَّا یُمْتَھَنُ جَازَ وَاِلَّا لَمْ ےَجُزْ ۔ ''علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں تصویر کے اِستعمال کے بارے میں ابن العربی سے نقل کیا۔ تصویر کے استعمال کے بارے میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر وہ مورتی اور مجسمہ ہے تو بالاتفاق حرام ہے۔ اور اگر کسی چیز پر نقش ہوتو چار اقوال ہیں : 1 ۔ ہرحال میں جائز ہے۔ اِس کی دلیل حدیث کے الفاظ الا رقما فی ثوب ہے 2 ۔ ہرحال میںناجائز ہے۔ 3۔ اگر تصویر کی اپنی مکمل شکل قائم ہے تو حرام ہے اور اگر اُس کا سرکٹا ہوا ہو یا اجزاء متفرق ہوں تو جائز ہے۔ 4 ۔ اگر اِستعمال اہانت کا ہے تو جائز ہے ورنہ ناجائز ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے بعض سلف کے بارے میں فرمایا : وَذَھَبَ بَعْضُ السَّلَفِ اِلٰی اَنَّ الْمَمْنُوْعَ مَاکَانَ لَہ ظِلّ وَاَمَّا مَالَا ظِلَّ لَہ فَلَا بَأْسَ بِاتِّخَاذِہ مُطْلَقًا۔ ''بعض سلف کا قول ہے کہ سایہ دار تصویریں (یعنی مورتیاں ) منع ہیں اور رَہیں غیر سایہ دار تصویریں اُن کو رکھنا اور اِستعمال کرنا ہرطرح سے جائز ہے۔'' اُوپر جن بعض مالکیہ کا ذکر ہے اُن میں سے علامہ دردیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :