ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
|
وَالْحَاصِلُ اَنَّ تَصَاوِیْرَ الْحَیَوَانِ تَحْرُمُ اِجْمَاعًا اِنْ کَانَتْ کَامِلَةً لَّھَا ظِلّ مِمَّا یَطُوْلُ اِسْتِمْرَارُہ بِخِلَافِ نَاقِصِ عُضْوٍ لَایَعِیْشُ بِہ لَوْکَانَ حَیَوَانًا وَبِخِلَافِ مَا لَا ظِلَّ لَہ کَنَقْشٍ فِیْ وَرَقٍ اَوْجِدَارٍ اَوْ فِیْ مَا لَا یَطُوْلُ اِسْتِمْرَارُہ خِلَاف وَالصَّحِیْحُ حُرْمَتُہ (تکملہ فتح الملہم ص 159 ج 4) ''حاصل یہ ہے کہ جاندار وں کی تصویروں کا اِستعمال بالاتفاق حرام ہے اگر وہ مکمل ہوں اور سایہ دار ہوں اور ایک عرصہ تک رہتی ہوں برخلاف اُس تصویر کے جس میں ایسا عضو کم ہو جس کے بغیرجاندار زندہ نہیں رہ سکتا اور برخلاف غیر سایہ دار تصویر کے جیسے کاغذ یا دیوار پر نقش ہو۔ اگر ایسی چیز پر نقش ہو جو زیادہ دیر نہیں رہتی مثلاً خربوزے کے چھلکے پر تواِس میں اختلاف ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ یہ بھی حرام ہے۔'' اِس عبارت میں تصاویر کی حرمت اور عدم ِ حرمت سے مراد اِستعمال کی حرمت وغیرہ ہے کیونکہ یہاں کاغذ یا دیوار پر نقش کے جائز ہونے کا حکم لگایا ہے۔ حالانکہ امام نووی رحمہ اللہ کی بات اُوپر گزر چکی ہے کہ اِن پر بھی تصویر بنانا بالاتفاق حرام ہے ۔لہٰذا یہاں مراد اِستعمال ہے نہ کہ تصویر سازی۔ اِسی طرح حضرت قاسم بن محمدکے بارے میں جو روایت ہے اُس کو ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے : عَنِ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی الْقَاسِمِ وَھُوَ بِاَعْلٰی مَکَّةَ فِیْ بَیْتِہ فَرَأَیْتُ فِیْ بَیْتِہ حَجْلَةً فِیْھَا تَصَاوِیْرُ الْقُنْدُسِ وَالْعَنْقَائِ ۔ ''ابن ِعون کہتے ہیں کہ میں بالائی مکہ میں حضرت قاسم بن محمد کے گھر میں داخل ہوا تو میں نے اُن کے کمرے میں ایک پردہ دیکھا جس پر پرندوں کی تصویریں تھیں۔'' اِس روایت میں بھی جاندار کی تصویر کے اِستعمال کا ذکر ہے بنانے کا کچھ ذکر نہیںہے