ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
|
ہوجاتا۔ کسی غیر کی بچے کی خدمت کر کے دیکھو تو حقیقت معلوم ہوجائے گی۔ گو خدا کا خوف کرکے تم روزانہ اُس کی خدمت کردو مگر دِل میں ناگواری ضرور ہوگی۔ غصّہ بھی آئے گا سوتیلی اَولاد کی خدمت اِس لیے گراں ہوتی ہے کہ اِس کے دِل میں اُن کی محبت نہیں ہوتی۔ چونکہ اَولاد کی محبت بغیر محبت کے دُشوار تھی اِس لیے حق تعالیٰ نے اولاد کی محبت والدین کے دِل میں ایسی پیدا کردی کہ اَب وہ اُس کی خدمت کرنے پر مجبور ہیں۔ اَولاد کی تمنا : (لوگوں کو) اَولاد کی تمنا اِس لیے ہوتی ہے کہ نام باقی رہے گا (خاندان اور سلسلہ چلے گا )۔ تو نام کی حقیقت سن لیجئے کہ ایک مجمع میں جاکر ذرا لوگوں سے پوچھئے تو بہت سے لوگوں کو پردادا کانام معلوم نہ ہوگا۔ جب خود اَولاد ہی کو اپنے پردادا کانام معلوم نہیں تو دُوسروں کو خاک معلوم ہوگا؟ تو بتلائیے اَولاد والوں کا بھی نام کہاں رہا۔ صاحبو ! نام تو خدا کی فرمانبرداری سے چلتاہے۔ خدا کی فرمانبرداری کرو اُ س سے نام چلے گا، اولاد سے نام نہیں چلا کرتا بلکہ اَولاد نالائق ہوئی تو اُلٹی بدنامی ہوتی ہے۔ اور نام چلا بھی تو نام چلنا ہی کیا چیز ہے جس کی تمنا کی جائے۔ یوں کسی کو طبعی طور پر اَولاد کی تمنا بھی ہوتو میں اُس کو برا نہیں کہتا کیونکہ اَولاد کی محبت اِنسان میں طبعی (فطری ) ہے چنانچہ بعض لوگ جنت میں بھی اَولاد کی تمنا کریں گے حالانکہ وہاں نام کا چلنا بھی مقصود نہ ہوگا۔ کیونکہ جنت کے رہنے والے کبھی ختم نہ ہوں گے بلکہ وہاں اِس تمنا کا منشاء (سبب )محض طبعی تقا ضا ہوگا، تو میں اِس سے منع نہیں کرتا۔ مقصود صرف یہ ہے کہ اِس طبعی تقاضے کی وجہ سے عورت کی خطاء نکال لینا کہ تیرے اَولاد نہیں ہوتی یا لڑکیاں ہی ہوتی ہیں ،بڑی غلطی ہے۔ اور اِس قسم کی غیر اِختیاری جرائم نکال کر اُن سے خفا ہونا اور اُن پر زیادتی کرنا ممنوع (اور ناجائز) حرام ہے اِس میں اُن بیچاریوں کی کیا خطاء ہے جو ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ (حقوق البیت ص ٣٩) یہ تو نہایت سخت غلطی ہے مثلاً بعض لوگ بیوی سے کہتے ہیں کہ کمبخت تیرے کبھی اولاد ہی نہیں ہوتی تو اِس میں وہ بیچاری کیا کرے۔ اَولاد کا ہونا کسی کے اِختیار میںتھوڑی ہے بعض دفعہ بادشاہوں کے اَولاد نہیں ہوتی حالانکہ وہ ہر قسم کی مقوی غذائیں اور (حمل والی ) دوائیں بھی اِستعمال کرتے ہیں مگر پھر بھی خاک اَثر نہیں