ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
|
بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی ہے جس سے دُنیا میں بھی قوت بڑھتی ہے اور قیامت میں ہمارے پیغمبر ۖ خوش ہوکر فخر فرمائیں گے۔ (حیاة المسلمین ) حضور ۖ کی اَولاد سے محبت : حق تعالیٰ نے اَولاد کی محبت والدین کے دِل میں پیدا کی ہے اَور یہ ایسی محبت ہے کہ جو مقدس ذاتیں محض حق تعالیٰ ہی کی محبت کے لیے مخصوص ہیں وہ بھی اِس محبت سے خالی نہیں۔ چنانچہ سیدنا رسول اللہ ۖ کو حضراتِ حسنین سے ایسی محبت تھی کہ ایک بار آپ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اِتنے میں حضرات حسنین بچے تھے لڑکھڑاتے ہوئے مسجد میں آگئے۔ حضور ۖ سے اُن کا لڑ کھڑانا دیکھ کر نہ رہاگیا۔ آپ ۖ نے درمیانِ خطبہ ہی ممبر سے اُتر کر اُن کو گود میں اُٹھالیااور پھر خطبہ جاری فرمایا۔ اگر آج کوئی شیخ ایسا کرے تو جہلا اُس کی حرکت کو خلاف ِوقار کہتے ہیں۔ مگر وہ زبان سنبھالیں کیسا وقار لیے پھرتے ہیں آج کل لوگوں نے تکبر کانام وقار اور خودداری رکھ لیاہے۔اور وفات کے واقعات میں یہ ہوا کہ حضور ۖ نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے وصال کے وقت رنج وغم کا اظہار فرمایا، آپ ۖ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور زبان سے یہ بھی فرمایا کہ اے ابراہیم ہم کو تمہاری جدائی کا واقعی صدمہ ہے۔ الغرض اَولاد کی محبت سے ذوات ِقدسیہ بھی خالی نہیں۔یہ تو حق تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ہمارے اَندر اَولاد کی محبت پیدا کردی اور اگر یہ داعی نہ ہوتا تو ہم اُن کے حقوق اَدا نہ کرسکتے۔ (الفیض الحسن ملحقہ حقوق الزوجین) اَولاد کی محبت کیوں پیدا کی گئی ؟ بچے جو گوہ کا ڈھیر اور موت کی پوٹ ہیں۔ اُن کی پرورش بغیر قلبی داعیہ (اور جزبہ) کے ہوہی نہیں سکتی۔ بچے تو ہروقت اپنی خدمت کراتے ہیں، خود خدمت کے لائق نہیں اُن کی حرکتیں بھی مجنونانہ (پاگل پن کی سی ہوتیں) ہیں مگر حق تعالیٰ نے ایسی محبت پیداکردی ہے کہ اُن کی مجنونانہ حرکت بھی بھلی معلوم ہوتی ہیں حتی کہ بعض دفعہ وہ کبھی خلاف تہذیب کام کرتے ہیں جس پر سزا دیناعقلاً ضروری ہوتا ہے مگر بچوں کے متعلق عقلمندوں میں اِختلاف ہوجا تاہے، ایک کہتا ہے سزا دی جائے دُوسرا کہتا ہے نہیں بچے ہیں اِن سے ایسی غلطی ہو ہی جاتی ہے معاف کردینا چاہیے۔ غرض اپنے بچوں کو تو کیوں نہ چاہیں، دُوسرے کے بچوں کو دیکھ کر پیار آتا ہے اور اُن کی حرکتیں اچھی معلوم ہوتی ہیں۔ اگر یہ محبت کا تقاضا اور داعیہ نہ ہوتو راتوں کو جاگنا اور گوہ موت کرانا دشوار