ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
|
میں مالکی علماء کے درمیان اِختلاف واقع ہواہے۔ مورتیوںکی حرمت پرتو مالکیہ کے تمام اَقوال و رَوایات متفق ہیں البتہ کاغذ یا کپڑے پر بنائی ہوئی تصویر میں اِختلاف ہے۔'' اِس طرح کی موہم عبارتیں پڑھ کر بعض اہلِ علم حضرات بھی خلافِ واقعہ اِس غلطی میں مبتلا ہوگئے کہ بعض مالکیہ کے نزدیک کاغذ وغیرہ پر تصویر بنانا جائز ہے۔ 1 ۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مولانا محمد یوسف خان صاحب تکملہ فتح الملہم وغیرہ سے ایک عبارت نقل کرکے اُس کا ترجمہ کرتے ہیں : فَالْحَاصِلُ اَنَّ الْمَنْعَ مِنِ اتِّخَاذِ الصُّوَرِ مُجْمَع عَلَیْہِ فِیْمَا بَیْنَ الْاَئِمَّةِ الْاَرْبَعَةِ اِذا کَانَتْ مُجَسَّدَةً ۔ اَمَّا غَیْرُ الْمُجَسَّدَةِ مِنْھَا فَاتَّفَقَ الْاَئِمَّةُ الثَّلاثَةُ عَلٰی حُرْمَتِھَا اَیْضًا وَالْمُخْتَارُ عَنِ الْاَئِمَّةِ الْمَالِکِیَّةِ کَرَاھَتُھَا لٰکِنْ ذَھَبَ بَعْضُ الْمَالِکِیَّةِ اِلٰی جَوَازِھَا ۔ ( تکملہ فتح الملہم ص 159 ج 4 ، فتح الباری ص 391 ج 10) '' خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کے نزدیک تصویر کشی بالاتفاق ناجائز ہے جبکہ وہ مجسم شے ہو۔ البتہ غیر مجسم شے کی تصویر کشی کی حرمت پر تین ائمہ فقہا تومتفق ہیں اور مالکیہ کا مختار مسلک کراہت کا ہے لیکن بعض مالکیہ کے یہاں اِس کا جواز بھی پایا جاتا ہے ۔ '' 2 ۔ جامعہ اِمدادیہ فیصل آباد کے مولانا محمد زاہد صاحب لکھتے ہیں : ''کیونکہ بیشتر فقہاء کے یہاں جاندار کی تصویر کے بنانے یارکھنے میں متعدد ا ستثناء ات موجود ہیں۔'' (مجلہ البلاغ ص 51 ذوالحجہ 1429ھ ) ہم کہتے ہیں : اَصل بات یہ ہے کہ تصویر کے مسئلہ میں دولفظ اِستعمال ہوتے ہیں۔ایک تصویر بمعنی مصدر یعنی تصویربنانا اور دُوسرے اتخاذ ِصورت یعنی تصویر کو رکھنا اور استعمال کرنا۔ تصویر سازی یعنی تصویر بنانا خواہ مورتی کی صورت میں ہو یا کاغذ وکپڑے پر وہ بالاتفاق حرام ہے۔ مالکیہ میں سے کسی نے یہ تصریح نہیں کی کہ اُن کے نزدیک کا غذ و کپڑے پر تصویر بناناجائز ہے۔ اِسی وجہ سے