ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
|
کہ جس پر نیک کاموں کی بے حرمتی بنتی ہو۔ اِن میں ہر مباح کام بھی جائز اور نیک کام بھی جائز ہے۔'' (مجلہ البلاغ ذوالحجہ 1429ھ ) اور اِسی پر مولانا اِدریس کاندھلوی رحمہ اللہ کا یہ کلام بھی محمول ہے : ''یہ(ٹی وی سکرین) چاقو ہے اِس سے خربوزہ کا ٹوگے تو جائزہے اور کسی کا پیٹ پھاڑو گے تو ناجائزہے۔ '' (مجلہ البلاغ ذوالحجہ 1429ھ ) دُوسری وضاحت : دارالعلوم کراچی کے رمضان 1429 ھ میں جاری کیے گئے فتوے میں جاندار کی تصویر کے بارے میں فقہاء کی آراء کو اِس طرح بیان کیا گیا ہے : ''اگر تصویر مجسموں کی شکل میں ہو اور اُس کے وہ تمام اَعضاء موجود ہوں جن پر زندگی کا اِنحصار ہوتاہے۔ نیز وہ تصویر بہت چھوٹی بھی نہ ہو اور گڑیوں کی قسم سے بھی نہ ہو تو اُس کے حرام ہونے پرپوری اُمت کا اتفاق ہے یعنی اُس کا بنانا اور استعمال کرنا بالاتفاق حرام اور ناجائز ہے اِس میں کسی کا کوئی اِختلاف نہیںہے۔ لیکن اگر تصویر مجسموں کی شکل میں نہ ہو بلکہ وہ کاغذ یا کپڑے وغیرہ پر اِس طرح بنی ہوئی ہو کہ اُس کا سایہ نہ پڑتاہو تواُس کے بارے میں ائمہ کرام کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ جمہور فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا مؤقف اِس میں بھی یہی ہے کہ یہ بھی ناجائز ہے البتہ امام مالک رحمہ اللہ سے ایسی تصویر کے جائز اور ناجائز ہونے کی دونوں روایتیں منقول ہیں۔ اِس لیے علماء ِمالکیہ کے یہاں اِس مسئلہ میں اِختلاف ہے۔ بعض مالکیہ ایسی تصویر کو بغیر کسی کراہت کے مطلقًا جائز قرار دیتے ہیں خواہ وہ موضع امتہان میں ہو یا نہ ہو۔ مالکیہ میں سے جوحضرات اِن تصاویر کے جائز ہونے کا فتوی دے رہے ہیں اُن میں بہت سے بڑے بڑے محققین علماء بھی شامل ہیں۔ علامہ ابن القاسم مالکی رحمہ اللہ، علامہ دردیر مالکی ، علامہ ابی مالکی ،.........وغیرہ جلیل القدر محققین قابل ِ ذکر ہیں۔