ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
|
مولانا زاہد الراشدی صاحب نے یہ مطلب نکالا کہ : ''تصویر اور سکرین دونوں کے بارے میں حضرت مفتی صاحب کے اِرشادات کا مطالعہ کیا جائے تو اِس کے سوا کچھ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ تصویر اور سکرین دونوں کو الگ الگ سمجھتے تھے۔ اُن کے نزدیک سکرین پر تصویر کا اِطلاق نہیں ہوا اَور اگر دیگر ممنوعہ اُمور سے خالی ہو تو سکرین فی حد ذاتہ مباح کا درجہ رکھتی ہے۔'' ہم کہتے ہیں : حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ کے فتوے سے مذکورہ مطلب نکالنا بہر حال دُرست نہیں کیونکہ اُن کے زمانے میں سنیما کی فلم کی رِیل نیگیٹو کی صورت میں ہوتی تھی جس پر واضح طور سے تصویر کے نقش ہوتے تھے اور جاندار کی تصویر چھوٹی ہو یابڑی اُس کو بنانا بالاتفاق ناجائز ہے۔ تو جب سنیما کی سکرین پر آنے والی جاندار کی صورت اُس کی تصویر بنانے پر موقوف تھی تو مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ کی بات سے یہ مطلب کیسے نکل سکتاہے کہ وہ اپنے زمانے کی سکرین پر دکھائی جانے والی نیگیٹوفلم بنانے کو جائز سمجھتے ہوں گے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ احتمال ہے کہ مفتی صاحب نیگیٹیو فلم کو جائز نہ سمجھتے ہوں گے لیکن اُس کے بننے کے بعد سکرین پر حاصل شدہ صورت کو تصویر بھی نہ سمجھتے ہوں گے تو ہم جواب میں کہتے ہیں : 1 ۔ مفتی صاحب کے کلام میں اِس اِحتمال پر کوئی صراحت یا دَلالت نہیںہے۔ 2 ۔ اِس کے بارے میں ہم اُوپر وضاحت کر چکے ہیں کہ وہ بھی تصویر کے حکم میں ہے۔ رہاسنیما کے فی حدذاتہ مباح ہونے کا معاملہ تو یہ ہمیں بھی تسلیم ہے۔ سنیما وفلم جو جاندار کی تصویر سے اور گانے بجانے سے خالی ہو اور جس میں کوئی ناجائز امر بھی نہ ہو،وہ بلا شبہ مباح ہے۔ فلم کے ذریعہ سے جغرافیہ ،تاریخ اور سائنس کے مضامین سیکھے جا سکتے ہیں۔جاندار کو بھی بغیر سر اور چہرے کے دکھایا جاسکتا ہے۔ ٹی وی،وی سی آر اَور سی ڈی کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ فی حد ذاتہ مباح ہیں جبکہ اُن کے پروگرام جاندار کی تصویر سے خالی ہوں، اِسی پر مولانا زاہد الراشدی صاحب کی ذکر کردہ مفتی جمیل احمد صاحب تھانوی رحمہ اللہ کی یہ عبارت بھی محمول ہے : ''اِن کا(یعنی ٹی وی ، وی سی آرکا) حکم آلات لہو ولعب اور گانے کے آلات کا نہیں ہوسکتا