ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
|
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے فرمایا زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ (مجھے کپڑااُڑھادو مجھے کپڑا اُڑھادو) اُنہوں نے آ پ ۖ کو کپڑا اُڑھادیا اور کچھ دیر بعد وہ خوف کی طبعی کیفیت جاتی رہی۔ اس کے بعد آپ ۖ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اپنا سارا واقعہ سنا کر فرمایا لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ (مجھے اپنی جان کا خوف ہے )۔ عورتیں کچی طبیعت کی ہوتی ہیں مرد کو گھبر ایا ہوا دیکھ کر اُس سے زیادہ گھبرا جاتی ہیں لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ذرا نہ گھبرائیں اور تسلی دیتے ہوئے خوب جم کر فرمایا : کَلَّا وَاللّٰہِ لَایُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ ۔ ''خدا کی قسم ہرگز نہیں ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تمہاری جان کو مصیبت میں ڈال کر تم کو رُسوا کرے(آپ کی صفات بڑی اچھی ہیں ایسی صفات والا رُسوا نہیں کیا جاتا)آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور مہمان نوازی آپ کی خاص صفت ہے۔ آپ بے بس وبے کس آدمی کا خرچ برداشت کرتے ہیں اور عاجزو محتاج کی مدد کرتے ہیں اور مصائب کے وقت حق کی مدد کرتے ہیں۔'' اِس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاآپ ۖ کو اپنے چچا زادبھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور اُن سے کہا کہ اے بھائی ! سنو یہ کیا کہتے ہیں؟ ورقہ بن نوفل بوڑھے آدمی تھے بینائی جاتی رہی تھی عیسائیت اختیار کیے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے حضورِ اَقدس ۖ سے دریافت کیا کہ آپ نے کیا دیکھا ہے؟ آپ ۖ نے اُن کو پوری کیفیت سے آگاہ فرمایا تو اُنہوں نے کہا : ھٰذَا النَّامُوْسُ الَّذِیْ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی مُوْسٰی یَا لَیْتَنِیْ فِیْھَا جَذَعًا یَالَیْتَنِیْ اَکُوْنُ حَیًّا اِذْ یُخْرِجْکَ قَوْمُکَ ۔ (بخاری شریف ص ٣ ) ''یہ تو وہی رازدار فرشتہ جبرائیل ہے جسے اللہ نے موسی (علیہ السلام ) پر نازل کیا تھا۔ کاش اُس وقت نوجوان ہوتا (جب آپ ۖ کی دعوت ِ دین کا ظہورہوگا ) کاش میں اُس وقت تک زندہ رہتا جب آپ ۖ کی قوم آپ کو نکال د ے گی۔''