ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
|
میں سب سے پہلے اِسلام قبول کرنے والے حضرت ابوبکر و حضرت علی رضی اللہ عنہما ہیں۔'' ایک مرتبہ آنحضرت ۖ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا : وَقَدْ اٰمَنَتْ بِیْ اِذْ کَفَرَ بِیَ النَّاسُ وَصَدَّقَتْنِیْ اِذْکَذَّبُوْنِیْ وَاٰنَسَتْنِیْ بِمَالِھَا اِذْ حَرُمَنِیَ النَّاسُ وَرَزَقَتْنِیَ اللّٰہُ وُلْدَھَا اِذْ حَرُمَنِیْ اَوْلَادُ النِّسَآئِ ۔(البدایہ) ''وہ مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ میری رسالت کے منکر تھے اَور اُنہوں نے میری تصدیق کی جبکہ لوگوں نے مجھے جھٹلایا اور اُنہوں نے اپنے مال سے میری ہمدردی کی جبکہ لوگوں نے مجھے اپنے مالوں سے محروم کیا اور اُن سے مجھے اللہ نے اَولاد نصیب فرمائی جبکہ دُوسری عورتیں مجھ سے نکاح کر کے اپنی اَولاد کا باپ بنانا گوارہ نہیں کرتی تھیں۔ '' اِسلام کے فروغ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا بہت بڑا حصّہ ہے۔ نبوت سے پہلے حضور اَقدس ۖ تنہائی میں عبادت کرنے کے لیے غار ِ حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ ۖ کے لیے کھانے پینے کا سامان تیار کرکے دے دیا کرتی تھیں۔ آپ ۖ غار ِ حرا میں کئی کئی رات رہتے تھے۔ جب خوردو نوش کا سامان ختم ہوجاتا تو آپ ۖ تشر یف لاتے اور سامان لے کر واپس چلے جاتے تھے۔ ایک دِن حسب ِ معمول آپ ۖ حراء میں مشغول ِ عبادت تھے کہ فرشتہ آیا اور اُس نے کہا اِقْرَأْ یعنی پڑھیے۔ آپ ۖ نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتہ نے آپ ۖ کو پکڑ کر اپنے سے چمٹاکر خوب زور سے بھینچ کر چھوڑدیا اور پھر کہا اِقْرَأْ (پڑھیے) آپ ۖ نے وہی جواب دیا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتہ نے دوبارہ آپ ۖ کو اپنے سے چمٹا کر خوب زور سے دبا کرچھوڑ دیا اور پھر پڑھنے کو کہا۔ آپ ۖنے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتہ نے پھر تیسری مرتبہ آپ ۖ کو پکڑ کر اپنے سے چمٹایا اور خوب زور سے دبا کر آپ ۖ کو چھوڑ دیا اور خود پڑھنے لگا۔ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ o یہ آیات سن کر آپ ۖ نے یاد فرمالیں اور ڈرتے ہوئے گھر تشریف لائے۔