ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
|
حافظ ابن ِکثیر نے البدایہ میں بحوالہ بیہقی یہ بھی نقل کیا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضور اَقدس ۖ سے نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں یہ بھی عرض کیا کہ آپ ایسا کرسکتے ہیں کہ جب فرشتہ آپ ۖ کے پاس آئے تو آپ مجھے اطلاع فرمادیں۔ آپ ۖ نے فرمایا ہاں ایسا ہوسکتا ہے۔ عرض کیا کہ اَب آئے تو بتلایئے گا۔ چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے توآپ ۖ نے فرمایا: اے خدیجہ یہ ہیں جبرائیل علیہ السلام۔ اُنہوں نے عرض کیا اِس وقت آپ کو نظر آرہے ہیں؟ فرمایا ہاں ! عرض کیا آپ اُٹھ کر میری داہنی طرف بیٹھ جائیں۔چنانچہ آپ ۖنے منظور فرمایا اور اپنی جگہ سے ہٹ کر اُن کی داہنی طرف بیٹھ گئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے پوچھا اِس وقت بھی آپ کو جبرائیل نظر آرہے ہیں؟ فرمایا ہاں نظر آرہے ہیں۔ عرض کیا آپ ۖ میری گود میں بیٹھ جائیں۔ آپ ۖنے ایسا ہی کیا جب آپ ۖ اُن کی گود میں بیٹھ گئے تو دریافت کیا۔ کیا اَب بھی آپ ۖ کو جبرائیل علیہ السلام نظر آرہے ہیں؟ فرمایا ہاں نظر آرہے ہیں۔اِس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا دوپٹہ ہٹا کر سرکھولا اور دریافت کیا ۔ کیا آپ اَب بھی حضرت جبرائیل علیہ السلام نظر آرہے ہیں؟ فرما یااَب تو نظر نہیں آتے یہ سن کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یقین جانیے یہ فرشتہ ہی ہے۔ آپ ثابت قدم رہیں اور نبوت کی خوشخبری قبول فرمائیں(اگریہ شیطان ہوتا تو میرا سردیکھ کر غائب نہ ہوجاتا چونکہ فرشتہ ہی ہے اِس لیے شرماگیا)۔ اِس واقعہ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی دانشمندی کا پتہ چلتا ہے۔ نبوت مل جانے کے بعد جب آنحضرت ۖ نے اِسلام کی دعوت دینی شرع کی تو مشرکین مکہ آپ ۖ کے دُشمن ہو گئے اور طرح طرح سے آپ ۖ کو ستانا شروع کر دیا،ساری قوم آپ کی دشمن اور عزیزو اَقربا بھی مخالف۔ایسے مصیبت کے زمانے میں آپ ۖ کے غم خوار صرف آپ کے چچا ابو طالب اور اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ حافظ ابن کثیر البدایہ میں لکھتے ہیں : وَکَانَتْ اَوَّلُ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَصَدَّقَتْ بِمَا جَآئَ مِنْہُ فَخَفَّفَ اللّٰہُ بِذَالِکَ عَنْ رَّسُوْلِہ لَا یَسْمَعُ شَیْئًا یَکْرَھُہ مِنْ رَدٍّ عَلَیْہِ وَتَکْذِیْبٍ لَّہ فَیَحْزِنُہ ذٰلِکَ اِلَّا فَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہُ اِذَا رَجَعَ اِلَیْھَا تُثَبِّتُہ وَتُخَفِّفُ عَنْہُ وَتُصَدِّقُہ وَ تُھَوِّنُ عَلَیْہِ اَمْرَالنَّاسِ ۔