ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
|
وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد زندہ نہ تھے وہ پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔ ہاں اِس نکاح میں اُن کے چچا عمر وبن اَسد شریک تھے اور اِن کے علاوہ حضرت ِ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاندان کے دیگر اکابر کو بھی بلایا تھا۔ عمرو بن اَسد کے مشورہ سے ٥٠٠ درہم مہر مقرر ہوا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ''اُمّ المؤمنین'' کے مشرف خطاب سے ممتاز ہوئیں۔ (الاصابہ و اُسد الغابہ) حضرت ابن ِعباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں مکہ والوں کی عورتیں ایک خوشی کے موقع پر جمع ہوئیں۔ اُن میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں۔ اچانک وہیں ایک شخص ظاہر ہوگیا جس نے بلند آواز سے کہا کہ اے مکہ کی عورتوں! تمہارے شہر میں ایک نبی ہوگا جسے'' احمد'' کہیں گے تم میں سے جو عورت اُن سے نکاح کرسکے ضرور کرلے۔ یہ باتیں سن کر دُوسری عورتوں نے بھول بھلیّو ں میں ڈال دی اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے گرہ باندھ لی اور اِس پر عمل کرکے کامیاب ہوکر رہیں۔ (الاصابہ) حضرت خدیجہ سب سے پہلے اِسلام لائیں اور اِسلام کے فروغ میں پوری طرح حصّہ لیا : حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو یہ مَنْقبَتْ حاصل ہے کہ وہ سب سے پہلے مسلمان ہوئیں یعنی حضور اَقدس ۖ کی دعوت ِ اسلام تمام اِنسانوں سے پہلے اِنہوں نے قبول کی۔ اِن سے پہلے نہ کوئی مرد اِسلام لایا نہ عورت نہ بوڑھا نہ بچہ۔ صاحب ِ مشکوٰة الا کمال فی اسما ء الرجال میں لکھتے ہیں : وَھِیَ اَوَّلُ مَنْ اٰمَنَ مِنْ کَافَّةِ النَّاسِ ذَکَرِھِمْ وَاُنْثَاھُمْ ۔ '' تمام اِنسانوں سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اِسلام لائیں۔ تمام مردوں سے بھی اور تمام عورتوں سے بھی پہلے۔'' وَمِثْلُہ فِی الْاِسْتِیْعَابِ حَیْثُ قَالَ نَاقِلًا عَنْ عُرْوَةَ اَوَّلُ مَنْ اٰمَنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ خَدِیْجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْھَا۔ حافظ ابن ِکثیر رحمہ اللہ تعالیٰ البدایہ میں محمد بن کعب سے نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : اَوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ مِنْ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ خَدِیْجَةُ وَاَوَّلُ رَجُلَیْنِ اَسْلَمَا اَبُوْبَکْرٍ وَعَلِیّ ''اُمت میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کیا۔ اور مردوں