ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
ہشام بن عروہ کی ہے آپ اِسے مشہور فرمائیں۔ یا قریب من المتواتر کہاجائے۔ اِس سے میرے استدلال پر کوئی اَثر نہیں پڑتا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ روایت ٩ کوفی حفاظ ِ حدیث نے کوفے میں ہشام سے سنی۔ بہرحال اِس نتیجہ تک پہنچنے کے لیے جن چند مقدمات کی ضرورت ہے اُن میں یہ پہلا مقدمہ ہے کہ روایت ِ ہشام اَصل روایت ہے۔ اور جب تک یہ مقدمات میں آپ کے سامنے پیش نہیں کروں گا اُس وقت تک آپ کیسے اِس نتیجہ پر پہنچیں گے جس تک میں پہنچا ہوں۔ میں چاہتاہوں کہ متابع کی بحث بعد میں کی جائے۔ اَصل روایت پر گفتگو کے دوران متابعات کی بحث میں میں اُلجھنا نہیں چاہتا۔ مجھے اِس پر اِس لیے اِصرار ہے کہ نتیجہ تک پہنچنے کے لیے یہ ترتیب ضروری ہے۔ اِس خط کے جواب کے بعد اِنشاء اللہ دُوسرا مقدمہ پیش کروں گا۔ رہا تقوی کا معاملہ تو اِس سلسلہ میں صرف اِتنا عرض ہے کہ یہاں توزندگی ساری کی ساری لغزشوں اور خطاؤں سے عبارت ہے۔اللہ تعالیٰ متقیوں کا دامن پکڑلینے کی توفیق عطافرمائے تو یہی بڑی کامیابی ہے۔ دُعا کی ضرورت ہے۔ وہی رحیم وکریم اور غفار الذنوب ہے ۔ اُحِبُّ الصَّالِحِیْنَ وَ لَسْتُ مِنْہُمْ لَعَلَّ اللّٰہَ یَرْزُقْنِیْ صَلَاحًا راقم نیاز احمد ٢٤ فروری ٨١ ء محترمی ومکرمی دام مجدکم ! السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ گرامی نامہ موصول ہوا۔ ہم سب ہی گناہگار ہیں۔ سوائے رحمت ِ رب کوئی سرمایہ نہیں۔ جناب نے معلوم ہوتا ہے واقعی برسوں محنت کی ہے۔ اور مجھے بھی یہی محسوس ہوتا تھا کہ کوئی بات نوعمری میں ذہن میں بیٹھ گئی اور وہ پکتی رہی ہے جیسے مودودی صاحب کے ذہن میں اَب سے ستاون سال پہلے سے حضرت عثمان ِ غنی