ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
|
نہیں لکھا کہ امام شافعی نے یہ روایت اُن سے کہاں سنی۔ میں تو یہ عرض کررہا ہوں کہ سفیان بن عیینہ نے یہ روایت ہشام بن عروہ سے کوفہ میں سنی اور وہیں دُوسرے کوفی حفاظ نے بھی یہ روایت اُن سے سنی۔ اور عرض کیا تھا کہ روایت ِ ہشام ہی اَصل میں کوفی روایت ہے کیونکہ اُن کو فی حفاظ نے اُن سے براہ ِ راست کوفے میں سناہے۔ اِس پر میں نے اپنے مضمون میں مفصّل بحث کی ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ '' ابومعاویہ کے سوااعمش سے روایت ِاَسود کا پورے ذخیرۂ حدیث ١ میں کوئی راوی نظر نہیں آتا''۔ اِس جملہ کو آپ نے میری طرف سے اِدّعاء خیال فرمایا اور اِس طرز ِ تحریر کو خلاف ِ تقوی فرمایا اور یہ دلیل بیان فرمائی کہ ''پورا ذخیرۂ حدیث نہ میرے پاس ہے نہ آپ کے پاس بلکہ عشر بھی نہیں ہے '' میری مراد ہر گز یہ نہیں ہے کہ جو ذخیرۂ حدیث میری نظر سے نہیں گزرا اُس کے متعلق بھی یہ دعوی کررہا ہوں اور نہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ دُنیا میں کوئی حدیث کی کتا ب ایسی نہیں جو میں نے نہ دیکھی ہو۔ میری مراد متداول ذخیرۂ حدیث سے ہے۔ اُس کی میں نے ورق گردانی کی ہے اور تلاش کیاہے مگر مجھے ایسا نہیں ملا۔اور یہ خالی امکان والی دلیل سمجھ میں نہیں آئی کہ چونکہ ہمارے پاس عشر عشیر بھی نہیں ہے اِس لیے اِس سے جو علاوہ ہے اُس میں اعمش سے ابو معاویہ کا اور بھی کوئی راوی ہوگا۔ صحیح طریقہ یہ تھا کہ آپ اعمش سے ابومعاویہ کے علاوہ کوئی دُوسرا راوی بیان فرمادیتے اور آپ کو لکھنے کا مقصد تھا بھی یہی۔ حضرت ! میرا مقصد پورے ذخیرۂ حدیث سے وہی ہے جو دستیاب ہے۔ جو دستیاب ہی نہیں وہ زیر ِ بحث آہی نہیں سکتا۔ آپ نے اِس روایت کو مشہور فرمایا۔ مگر علامہ ابن ہمام نے '' ہَذَا النَّصُّ قَرِیْب مِّنَ الْمُتَوَاتِرِ'' فرمایا۔ اور حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی نوراللہ مرقدہ نے بھی فتح الملہم میں یہی فرمایاہے۔ آپ تو ابھی ایک قدم پیچھے ہیں۔ حضرت ! میرے پاس اور بھی ثبوت ہے کہ یہ روایت عَنْ اَعْمَشَ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ اَسْوَدَ ہے ہی نہیں۔ لیکن اَصل اور متابع کی بحث طے ہوتو آگے چلیں۔اِتنی واضح اور سادہ بات میں میں اور آپ اَب تک متفق نہ ہوسکے کہ اَصل روایت کونسی ہے اور متابع کونسی۔ میرے استدلال کی بنیاد ہی یہ ہے کہ اَصل روایت ١ میرے اصل مسودے میں ''پورے معلوم ذخیرہ ٔ حدیث میں ''تھا نقل کرنے میں '' معلوم '' رہ گیا۔