ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
|
حصول ِ تعلیم کے بعد کتابوں کو لوٹ کر دیکھا ہی نہیں۔ تعلیم کے دوران ضابطے کے مطابق حضرت مدنی رحمہ اللہ علیہ سے بخاری شریف اور ترمذی شریف پڑھیں۔ دَورے کی باقی کتابیں دُوسرے اَساتذہ سے پڑھیں اور امتحان دے کر گھر چلے آئے۔ فنون کی کتابیں تو زیر مطالعہ آتی رہیں مگر حدیث شریف کی کتابیں دوبارہ پڑھنے کی نوبت نہیں آئی۔ اِس لیے فن حدیث میں نہ میرا کوئی مقام ہے اور نہ میں اِس کا مدعی ہوں۔ تعلیم سے فراغت کے برسوں بعد میں نے صرف روایت ِ تزوج پر کام شروع کیا اور مسلسل کئی سال کی محنت کے بعد اِس سے فارغ ہوا اَور مختلف علماء سے تبادلہ خیالات کرتا رہا۔ مولانا الیف اللہ صاحب عثمانی تو اِس کام میں برابر شریک رہے پھر دس سال تک اِس کام کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اَب خیال آیا کہ یہ ایک علمی کام ہے علماء کے سامنے آنا چاہیے۔ اِس سلسلہ میں بیسیوں سفرکیے۔ مختلف کتب خانوں میں پہنچا۔ پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں پڑھنے جاتا تھا ۔اور یہاں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب سرگودھو ی صاحب مرحوم کے کتب خانہ میں مہینوں بیٹھا رہا۔ مطب بند کردیا تھا۔ اُن کے کتب خانے کی بہت سی کتابوںکو پہلی دفعہ میں نے دیکھا ۔ اُس وقت تک اُن کے اَوراق بھی نہیں کٹے تھے، رجال کی جوکتابیں مہیا ہوسکیں اُن کو بار بار مطالعہ کیا۔ غرض حدیث میں روایت ِ تزوج کامیں الحمد للہ حافظ ہوں۔ میں نے جو کچھ کیا خلوصِ نیت سے کیا۔ صرف اپنی تسکین ِ قلب کے لیے کیا اور طالبعلمی ہی کے زمانہ سے اِس مسئلہ میں جو اشکال ہوتا تھا اُس کی تحقیق کے لیے کیا۔ میں نہ کوئی عالم ہوں نہ مصنف۔ میرے دل میں ہرگز یہ ہوس نہیں ہے کہ میرا نام ہو۔ میں تو ایک معمولی طالبعلم ہوں اور یہ بھی طلب علم ہی ہے۔ مقدمات کے بغیر نتیجہ تک پہنچنا نہ صحیح طریقہ ہے اور نہ مفید۔ آپ کے ذہن میں یہ روایات اِس طرح مرتسم ہیں کہ اُن کی وجہ سے کوئی دلیل بھی قوی ثابت نہیں ہوسکتیں۔ یعنی صرف اِتنی بات کہ روایت ِ ہشام محدثین کے نزدیک اَصل روایت ہے اَور دُوسرے رُواة کی روایات متابع ہیں، اَب تک آپ سے اِس کی سند ِقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔ میں جانتا ہوں کہ سفیان بن عیینہ مکہ مکرمہ میں مقیم ہوگئے تھے اور اِسی کو وطن بنالیا تھا۔ وہیں اُن کی وفات ہوئی۔ امام شافعی نے یہ روایت اِن سے مکہ مکرمہ میں ہی سنی ہوگی۔ مگر میں نے تو اپنے خط میں کہیں بھی